جديدنا

حضور اقدس ﷺ کےاخلاق،اوصاف و حُلیۂ مُبارک





    نبی کریمﷺ ایسے جمال ِ خَلق اور کمال ِ خُلق سے مُتّصِف تھے جو حیطہ ٔ بیان
    سے باہر ہے۔ اس جمال وکمال کا اثر یہ تھا کہ





    دل آپﷺ کی تعظیم اور قدر
    ومنزلت کے جذبات سے خود بخود لبریز ہوجاتے تھے۔ چنانچہ آپ کی حفاظت اور
    اجلال وتکریم میں لوگوں نے ایسی ایسی فدا کاری وجاں نثاری کا ثبوت دیا جس
    کی نظیر دنیا کی کسی اور شخصیت کے سلسلے میں پیش نہیں کی جاسکتی۔ آپﷺ کے
    رفقاء اور ہم نشین وارفتگی کی حد تک آپ سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گوارا نہ
    تھا کہ آپﷺ کو خراش آجائے، خواہ اس کے لیے ان کی گردنیں ہی کیوں نہ کاٹ دی
    جائیں۔ اس طرح کی محبت کی وجہ یہی تھی کہ عادتاً جن کمالات پر جان چھڑ کی
    جاتی ہے ان کمالات سے جس قدر حصہ ٔ وافر آپﷺ کو عطا ہواتھا کسی اور انسان
    کو نہ ملا۔ ذیل میں ہم عاجزی وبے مائیگی کے اعتراف کے ساتھ ان روایات کا
    خلاصہ پیش کررہے ہیں جن کا تعلق آپﷺ کے جمال وکمال سے ہے۔




    حُلیۂ مُبارک :


    ہجرت کے وقت رسول اللہﷺ اُمّ ِ معبد خُزاعیہ کے خیمے سے گذرے تو اس نے آپﷺ
    کی روانگی کے بعد اپنے شوہر سے آپﷺ کے حلیہ مبارک کاجو نقشہ کھینچا وہ یہ
    تھا۔ چمکتا رنگ ، تابناک چہرہ ، خوبصورت ساخت ، نہ توند لے پن کا عیب ، نہ
    گنجے پن کی خامی ، جمال جہاں تاب کے ساتھ ڈھلا ہوا پیکر ، سرمگیں آنکھیں ،
    لمبی پلکیں ، بھاری آواز، لمبی گردن ، سفید وسیاہ آنکھیں ، سیاہ سرمگیں
    پلکیں ، باریک اور باہم ملے ہوئے ابرو ، چمکدار کالے بال ، خاموش ہوں تو
    باوقار ، گفتگو کریں تو پرکشش ، دور سے (دیکھنے میں) سب سے تابناک و پُر
    جمال ،قریب سے سب سے خوبصورت اور شیریں ، گفتگو میں چاشنی، بات واضح اور
    دوٹوک ، نہ مختصر نہ فضول ، انداز ایسا کہ گویا لڑی سے موتی جھڑ رہے ہیں۔
    درمیانہ قد ، نہ ناٹا کہ نگاہ میں نہ جچے، نہ لمبا کہ ناگوار لگے ، دوشاخوں
    کے درمیان ایک شاخ جو تینوں میں سب سے زیادہ تازہ وخوش منظر وپُر رونق ،
    رفقاء آپﷺ کے گرد حلقہ بنائے ہوئے ، کچھ فرمائیں تو توجہ سے سنتے ہیں۔ کوئی
    حکم دیں تو لپک کر بجالاتے ہیں مطاع ومکرم نہ ترش رو، نہ لغو گو۔1

    حضرت علیؓ آپﷺ کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : آپ نہ لمبے تڑنگے تھے نہ
    ناٹے کھوٹے ، لوگوں کے حساب سے درمیانہ قد کے تھے ، بال نہ زیادہ
    گھنگریالے تھے نہ بالکل کھڑے کھڑے ، دونوں کے بیچ بیچ کی کیفیت تھی ، رخسار
    نہ بہت زیادہ پُر گوشت تھا ، نہ ٹھڈی چھوٹی اور پیشانی پست ، چہرہ کسی قدر
    گولائی لیے
    ہوئے تھا۔ رنگ گورا گلابی، آنکھیں سرخی مائل ، پلکیں لمبی ، جوڑوں اور
    مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی ، سینہ پر ناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر ، بقیہ
    جسم بال سے خالی ، ہتھیلی اور پاؤں پر گوشت ، چلتے تو قدرے جھٹکے سے پاؤں
    اٹھا تے۔ اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پر چل رہے ہیں، جب کسی طرف ملتفت
    ہوتے تو پورے وجود کے ساتھ ملتفت ہوتے ، دونوںکندھوں کے درمیان مہر نبوت
    تھی۔ آپﷺ سارے انبیاء کے خاتم تھے۔ سب سے زیادہ سخی دست اور سب سے بڑھ کر
    جرأت مند، سب سے زیادہ صادق اللہجہ اور سب سے بڑھ کر عہد وپیمان کے پابندِ
    وفاء۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے شریف ساتھی۔ جو آپﷺ کو اچانک
    دیکھتا ہیبت زدہ ہوجاتا۔ جوجان پہچان کے ساتھ ملتا محبوب رکھتا۔ آپﷺ کا وصف
    بیان کر نے والا یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آپﷺ سے پہلے اور آپﷺ کے بعد
    آپﷺ جیسا نہیں دیکھا۔1

    حضرت علیؓ کی ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ کا سر بڑا تھا۔ جوڑوں کی ہڈیاں بھاری
    بھاری تھیں۔ سینے کے درمیان بال کی لمبی لکیر تھی۔ جب آپ چلتے تو قدرے جھک
    کرچلتے گویا کسی ڈھلوان سے اتر رہے ہیں۔2

    حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے کہ آپﷺ کا دہانہ کشادہ تھا۔ آنکھیں ہلکی سُرخی لیے ہوئے ، اور ایڑیاں باریک۔3

    حضرت ابو الطفیل کہتے ہیں کہ آپﷺ گورے رنگ ، پُر ملاحت چہرے اور میانہ قدر وقامت کے تھے۔4

    حضرت انس بن مالکؓ کا ارشاد ہے کہ آپﷺ کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں ، اور رنگ
    چمکدار ، نہ خالص سفید ، نہ گندم گوں، وفات کے وقت تک سر اور چہرے کے بیس
    بال بھی سفید نہ ہوئے تھے۔5صرف کنپٹی کے بالوں میں سفیدی تھی ، اور چند بال
    سر کے سفید تھے۔ 6

    حضرت ابوجُحَیفہؓ کہتے ہیں کہ میں نے آ پﷺ کے نچلے ہونٹ کے نیچے عنفقہ (داڑھی بچہ ) میں سفیدی دیکھی۔7

    حضرت عبد اللہ بن بسرؓ کا بیان ہے کہ آپﷺ کے عنفقہ (داڑھی بچہ ) میں چند بال سفید تھے۔8
    حضرت براء کا بیان ہے کہ آپ کا پیکر درمیانی تھا۔ دونو ں کندھوں کے درمیان
    دوری تھی۔ بال دونوںکانوں کی لو تک پہنچتے تھے۔ میں نے آپ کو سرخ جوڑا زیب
    تن کیے ہوئے دیکھا، کبھی کوئی چیز آپ سے زیادہ خوبصورت نہ دیکھی۔


    پہلے آپ اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے ، اس لیے بال میں کنگھی کرتے تو مانگ نہ نکالتے۔ لیکن بعد میں مانگ نکالا کرتے تھے۔1

    حضرت براء کہتے ہیں : آپ کا چہرہ سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور آپ کے اخلاق سب سے بہتر تھے۔2

    ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا نبیﷺ کا چہرہ تلوار جیسا تھا۔ انہوں نے کہا :
    نہیں بلکہ چاند جیسا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کا چہرہ گول تھا۔3

    ربیع بنت معوذ کہتی ہیں کہ اگر تم حضور کو دیکھتے تو لگتا کہ تم نے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا ہے۔4

    حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپﷺ کو
    دیکھا ، آپ پر سُرخ جوڑا تھا۔ میں رسول اللہﷺ کو دیکھتا ، اور چاند
    کودیکھتا۔ آخر (اسی نتیجہ پر پہنچا کہ ) آپ چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں۔5

    حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے زیادہ خوبصورت کوئی
    چیز نہیں دیکھی لگتا تھا سورج آپﷺ کے چہرے میں رواں دواں ہے۔ اور میں نے
    رسول اللہﷺ سے بڑھ کر کسی کو تیز رفتار نہیں دیکھا۔ لگتا تھا زمین آپ کے
    لیے لپیٹی جارہی ہے۔ ہم تو اپنے آپ کو تھکا مارتے تھے۔ اور آپ بالکل بے
    فکر۔6

    حضرت کعب بن مالک کا بیان ہے کہ جب آپﷺ خوش ہوتے تو چہرہ دمک اٹھتا ، گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔7

    ایک بار آپﷺ حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف فرماتھے۔ آپﷺ جوتا سی رہے تھے۔ اور
    وہ دھاگا کات رہی تھیں۔ پسینہ آیا تو چہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں۔ یہ کیفیت
    دیکھ کر حضرت عائشہؓ مبہوت ہوگئیں۔ اور کہنے لگیں کہ اگر ابو کبیر ہذلی آپﷺ
    کو دیکھ لیتا تو اسے معلوم ہوجاتا کہ اس کے اس شعر کے حقدار کسی اور سے
    زیادہ آپ ہیں :




    وإذا نظرت إلی أسرۃ وجہہ


    برقت کبرق العارض المتہلل 8













    ابو بکرؓ آپ کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے :
    أمین مصطفی بالخیر یدعــو

    کضـــوء البدر زایلہ الظـلام 1











    حضرت عمرؓ زُہیر کا یہ شعر پڑھتے جو ہرم بن سنان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ

    لو کنت من شئ سـوی البشر

    کنت المضـئ للیلـۃ البــدر2











    جب آپﷺ غضب ناک ہوتے تو چہرہ سرخ ہوجاتا گویا دونوں رخساروں میں دانۂ انار نچوڑ دیا گیا ہے۔3

    حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے کہ آپﷺ کی پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں۔ اور آپﷺ
    ہنستے تو صرف تبسم فرماتے (آنکھیں سرمگیں تھیں ) تم دیکھتے تو کہتے کہ آپﷺ
    نے آنکھوں میں سرمہ لگا رکھا ہے حالانکہ سرمہ نہ لگا ہو تا۔4

    حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ کے دانت سب سے زیادہ خوبصورت تھے۔5

    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے کہ آپﷺ کے آگے کے دونوں دانت الگ
    الگ تھے۔ جب آپﷺ گفتگو فرماتے تو ان دانتوں کے درمیان سے نور جیسا نکلتا
    دکھائی دیتا۔6

    گردن گویا چاندی کی صفائی لیے ہوئے گڑیا کی گردن تھی، پلکیں طویل، داڑھی
    گھنی ، پیشانی کشادہ ، ابرو پیوستہ اور ایک دوسرے سے الگ ، ناک اونچی ،
    رخسار ہلکے ، لبہ سے ناف تک چھڑی کی طرح دوڑا ہوا بال ، اور اس کے سوا شکم
    اور سینے پر کہیں بال نہیں ، البتہ بازو اور مونڈھوں پر بال تھے ، شکم اور
    سینہ برابر ، سینہ مسطح اور کشادہ ، کلائیاں بڑی بڑی ، ہتھیلیاں کشادہ ، قد
    کھڑا ، تلوے خالی ، اعضاء بڑے بڑے ، جب چلتے تو جھٹکے کے ساتھ چلتے ، قدرے
    جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھتے ، اور سہل رفتارسے چلتے
    ۔

    حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حریر ودیبا ج نہیں چھویا جو رسول
    اللہﷺ کی ہتھیلی سے نرم رہا ہو۔ اور نہ کبھی کوئی عنبر یا مشک یا کوئی ایسی
    خوشبو سونگھی جو رسول اللہﷺ کی خوشبو سے بہتر رہی ہو۔1

    حضرے ابو جحیفہؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کا ہاتھ اپنے چہرہ پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھا۔2

    حضرت جابر بن سمرہؓ ... جو بچے تھے ... کہتے ہیں : آ پﷺ نے میرے رخسار پر
    ہاتھ پھیرا تو میں نے آپﷺ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور ایسی خوشبو محسوس کی
    گویا آپﷺ نے اسے عطار کے عطر دان سے نکالا ہے۔3 حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ
    آپﷺ کا پسینہ گویا موتی ہوتا تھا۔ اور حضرت اُم سُلَیْم کہتی ہیں کہ یہ
    پسینہ ہی سب سے عمدہ خوشبو ہوا کرتی تھی۔4

    حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ کسی راستے سے تشریف لے جاتے اور آپﷺ کے بعد
    کوئی اور گذرتا تو آپﷺ کے جسم یا پسینہ کی خوشبو کی وجہ سے جان جاتا کہ آپﷺ
    یہاں سے تشریف لے گئے ہیں۔5

    آپﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی جو کبوتر کے انڈے جیسی اور جسم
    مُبارک ہی کے مشابہ تھی۔ یہ بائیں کندھے کی کری (نرم ہڈی) کے پاس تھی۔ اس
    پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹ تھا۔6


    کمال ِ نفس اور مکارمِ اخلاق:
    نبیﷺ فصاحت وبلاغت میں ممتاز تھے۔ آپ طبیعت کی روانی ، لفظ کے نکھار ،
    فقروں کی جزالت، معانی کی صحت ، اور تکلف سے دوری کے ساتھ ساتھ جوامع الکلم
    (جامع باتوں ) سے نوازے گئے تھے۔ آپ کو نادر حکمتوں اور عرب کی تمام
    زبانوں کا علم عطا ہو ا تھا۔ چنانچہ آپﷺ ہر قبیلے سے اسی کی زبان اور
    محاوروں میں گفتگو فرماتے تھے۔ آپﷺ میں بدویوں کا زورِ بیان اور قوت ِ
    تخاطب اور شہریوں کی شستگی ٔ الفاظ اور شفتگی ٔوشائستگی جمع تھی اور وحی پر
    مبنی تائید ربانی الگ سے۔

    بُردباری ، قوت ِ برداشت ، قدرت پاکر درگذر اور مشکلات پر صبر ایسے اوصاف
    تھے جن کے ذریعہ اللہ نے آپ کی تربیت کی تھی۔ ہر حلیم وبردبارکی کو ئی نہ
    کوئی لغزش اور کوئی نہ کوئی ہفوات جانی جاتی ہے ، مگر نبیﷺ کی بلندیٔ کردار
    کا عالم یہ تھا کہ آپ کے خلاف دشمنوں کی ایذا رسانی اور بدمعاشوں کی خود
    سری و زیادتی جس قدر بڑھتی گئی ، آپ کے صبر و حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا
    گیا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کو جب بھی دو کاموں کے درمیان
    اختیار دیا جاتا تو آپ وہی کام اختیار فرماتے جو آسان ہوتا ، جب تک کہ وہ
    گناہ کا کام نہ ہوتا۔ اگر گناہ کاکام ہوتا تو آپﷺ سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے۔ آپﷺ نے
    کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیا، البتہ اگر اللہ کی حرمت چاک کی جاتی
    تو آپﷺ اللہ کے لیے انتقام لیتے۔1

    آپﷺ سب سے بڑھ کر غیظ و غضب سے دور تھے۔ اور سب سے جلد راضی ہوجاتے تھے۔
    جود و کرم کا وصف ایسا تھا کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ آپﷺ اس شخص
    کی طرح بخشش و نوازش فرماتے تھے جسے فقر کا اندیشہ نہ ہو۔ ابن عباسؓ کا
    بیان ہے کہ نبیﷺ سب سے بڑھ کر پیکر جود و سخا تھے۔ اور آپﷺ کا دریائے سخاوت
    رمضان میں اس وقت زیادہ جوش پر ہوتا جب حضرت جبریل آپﷺ سے ملاقات فرماتے۔
    اور حضرت جبریل رمضان میں آپﷺ سے ہر رات ملاقات فرماتے۔ اور قرآن کا دور
    کراتے۔ پس رسول اللہﷺ خیر کی سخاوت میں ( خزائن رحمت سے مالا مال کرکے )
    بھیجی ہوئی ہواسے بھی زیادہ پیش پیش ہوتے تھے۔2 حضرت جابرؓ کا ارشاد ہے کہ
    ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ نے نہیں کہہ دیا
    ہو۔3

    شجاعت ، بہادری اور دلیری میں بھی آپﷺ کا مقام سب سے بلند اور معروف تھا۔
    آپﷺ سب سے زیادہ دلیر تھے۔ نہایت کٹھن اور مشکل مواقع پر جبکہ اچھے اچھے
    جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑ گئے ، آپﷺ اپنی جگہ برقرار رہے اور
    پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے ہی برھتے گئے۔ پائے ثبات میں ذرالغزش نہ آئی۔ بڑے
    بڑے بہادر بھی کبھی نہ کبھی بھاگے اور پسپا ہوئے ہیں۔ مگر آپﷺ میں یہ بات
    کبھی نہیں پائی گئی۔ حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ جب زور کارَن پڑتا اور جنگ کے
    شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول اللہﷺ کی آڑ لیا کر تے تھے۔ آپﷺ سے بڑھ کر
    کوئی شخص دشمن کے قریب نہ ہوتا۔ 4حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ ایک رات اہل
    مدینہ کو خطرہ محسوس ہوا۔ لوگ آوازکی طرف دوڑے۔ راستے میں رسول اللہﷺ واپس
    آتے ہوئے ملے۔ ا ٓپﷺ لوگوں سے پہلے ہی آواز کی جانب پہنچ (کر خطرے کے مقام
    کا جائزہ لے ) چکے تھے۔ اس وقت آپﷺ ابو طلحہؓ کے ایک ننگے گھوڑے پر سوار
    تھے۔ گردن میں تلوار حمائل کر رکھی تھی۔ اور فرمارہے تھے : ڈرو نہیں ، ڈرو
    نہیں۔5(کوئی خطرہ نہیں )

    آپﷺ سب سے زیادہ حیا دار اور پست نگاہ تھے۔ ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ
    آپ پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپﷺ کو کوئی بات
    ناگوارگزرتی تو چہرے سے پتہ لگ جاتا۔6اپنی نظریں کسی کے چہرے پر گاڑتے نہ
    تھے۔ نگاہ پست رکھتے تھے اور آسمان کی بہ نسبت زمین کی طرف نظر زیادہ دیر
    تک رہتی تھی۔ عموماً نیچی نگاہ سے تاکتے تھے۔ حیا اور کرم نفس کا عالم یہ
    تھا کہ کسی سے ناگوار بات رُودررُو نہ کہتے۔ اور نہ کسی کی کوئی ناگوار بات
    آپﷺ تک پہنچتی تو نام لے کر ا س کا ذکر کرتے۔ بلکہ یوں فرماتے کہ کیا بات
    ہے کہ کچھ

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    1صحیح بخاری ۱/۵۰۳ 2 ایضاً ۱/۵۰۲ 3 ایضاً ایضاً

    4 شفاء قاضی عیاض ۱/۸۹ صحاح وسنن میں بھی اس مضمون کی روایت موجود ہے۔

    5 صحیح مسلم ۲/۲۵۲۔ صحیح بخاری ۱/۴۰۷ 6 صحیح بخاری ۱/۵۰۴

    لوگ ایسا کررہے ہیں۔ فَرزْدَق کے اس شعر کے سب سے زیادہ صحیح مصداق آپ تھے۔




    یغضی حیاء ویغضی من مہابتہ


    فلا یکلــــم إلا حیـن یبتســــم

    آپ
    حیاء کے سبب نگاہ پست رکھتے ہیں۔ اور آپ کی ہیبت کے سبب نگاہیں پست رکھی
    جاتی ہیں، چنانچہ آپ سے اسی وقت گفتگو کی جاتی جب ہے آپ تبسم فرمارہے ہوں۔

    آپﷺ سب سے زیادہ عادل ، پاک دامن ، صادق اللہجہ اور عظیم الامانتہ تھے۔ اس
    کا اعتراف آپﷺ کے دوست دشمن سب کو ہے۔ نبوت سے پہلے آپﷺ کو امین کہا جاتا
    تھا۔ اور دور ِ جاہلیت میں آپﷺ کے پاس فیصلے کے لیے مقدمات لائے جاتے تھے۔
    جامع ترمذی میں حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ ایک بار ابو جہل نے آپﷺ سے کہا :
    ہم آپﷺ کو جھوٹا نہیں کہتے، البتہ آپﷺ جو کچھ لے کرآئے ہیں اسے جھٹلاتے
    ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

    فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ (۶: ۳۳)











    ہِرَقْل نے ابو سفیان سے دریافت کیا کہ کیا اس (نبیﷺ ) نے جو بات کہی
    ہے اس کے کہنے سے پہلے تم لوگ اسے جھوٹ سے متہم کرتے تھے ؟ تو ابو سفیان
    نے جواب دیا کہ ''نہیں۔''

    آپﷺ سب سے زیادہ متواضع اور تکبّر سے دور تھے۔ جس طرح بادشاہوں کے لیے ان
    کے خُدام وحاشیہ بردار کھڑے رہتے ہیں اس طرح اپنے لیے آپ صحابہ کرام کو
    کھڑے ہونے سے منع فرماتے تھے۔ مسکینوں کی عیادت کرتے تھے ، فقراء کے ساتھ
    اٹھتے بیٹھتے تھے۔ غلام کی دعوت منظور فرماتے تھے ، صحابہ کرام رضی اللہ
    عنہم میں کسی امتیاز کے بغیر ایک عام آدمی کی طرح بیٹھتے تھے۔ حضرت عائشہؓ
    فرماتی ہیں کہ آپﷺ اپنے جوتے خود ٹانکتے تھے۔ اپنے کپڑے خود سیتے تھے۔ اور
    اپنے ہاتھ سے اس طرح کام کرتے تھے جیسے تم میں سے کوئی آدمی اپنے گھر کے
    کام کاج کرتا ہے۔ آپﷺ بھی انسانوںمیں سے ایک انسان تھے۔ اپنے کپڑوں میں
    جوئیں تلاش کرتے تھے۔ اپنی بکری دوہتے تھے اور اپنا کام خود کرتے تھے۔2

    آپﷺ سب سے بڑھ کر عہد کی پابندی اور صلہ رحمی فرماتے تھے۔ لوگوں کے ساتھ سب
    سے زیادہ شفقت اور رحم ومروت سے پیش آتے تھے۔ رہائش اور ادب میں سب سے
    اچھے تھے۔ آپﷺ کا اخلاق سب سے زیادہ کشادہ تھا۔ بد خلقی سے سب سے زیادہ دور
    ونفور تھے نہ عادتا ً فحش گوتھے ، نہ بہ تکلف فحش کہتے تھے۔ نہ لعنت کرتے
    تھے۔ نہ بازار میں چیختے چلاتے تھے۔ نہ بُرائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے۔
    بلکہ معافی اور درگذر سے کام 
    لیتے تھے۔ کسی کو اپنے پیچھے چلتا ہوا نہ چھوڑتے تھے۔ اور نہ کھانے پینے
    میں اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر ترفُّع اختیار فرماتے تھے۔ اپنے خادم کاکام
    خودہی کردیتے تھے۔ کبھی اپنے خادم کو اُف نہیں کہا، نہ کسی کام کے کرنے یا
    نہ کرنے پر عتاب فرمایا۔ مسکینوں سے محبت کرتے ، ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے
    اور ان کے جنازوں میں حاضر ہوتے تھے۔ کسی فقیر کوا س کے فقر کی وجہ سے حقیر
    نہیں سمجھتے تھے۔ ایک بار آپﷺ سفر میں تھے۔ ایک بکری کاٹنے پکانے کا مشورہ
    ہوا۔ ایک نے کہا : ذبح کرنا میرے ذمہ ، دوسرے نے کہا کھال اتارنا میرے ذمہ
    ، تیسرے نے کہا : پکانا میرے ذمہ ، نبیﷺ نے فرمایا لکڑی جمع کرنا میرے
    ذمہ، صحابہ نے عرض کیا : ہم آپ کاکام کردیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: میں
    جانتاہوں تم لوگ میرا کام کردوگے۔ لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ تم پر امتیاز
    حاصل کرو ں، کیونکہ اللہ اپنے بندے کی یہ حرکت ناپسند کرتا ہے کہ وہ اپنے
    آپ کو اپنے رفقاء میں ممتاز سمجھے ، اس کے بعد آپﷺ نے اُٹھ کر لکڑی جمع
    فرمائی۔1

    آیئے! ذرا ہند بن ابی ہالہ کی زبانی رسول اللہﷺ کے اوصاف سنیں۔ ہند اپنی
    ایک طویل روایت میں کہتے ہیں : رسول اللہﷺ پیہم غموں سے دوچار تھے۔ ہمیشہ
    غور وفکر فرماتے رہتے تھے۔ آپ کے لیے راحت نہ تھی۔ بلا ضرورت نہ بولتے تھے۔
    دیر تک خاموش رہتے تھے۔ بات کا آغاز واختتام پورے منہ سے کرتے تھے، یعنی
    صرف منہ کے کنارے سے نہ بولتے تھے،جامع اور دوٹوک کلمات کہتے تھے۔ جن میں
    نہ فضول گوئی ہوتی تھی نہ کوتاہی۔ نرم خو تھے۔ جفا جو اور ناقدرے نہ تھے۔
    نعمت معمولی بھی ہوتی تو اس کی تعظیم کرتے تھے۔ کسی چیز کی مذمت نہیں
    فرماتے تھے۔ کھانے کی نہ برائی کرتے تھے نہ تعریف ، حق سے کوئی تعرض کیا
    جاتا تو جب تک انتقام نہ لے لیتے آپ کے غضب کو روکا نہ جاسکتا تھا۔ البتہ
    کشادہ دل تھے، اپنے نفس کے لیے نہ غضبناک ہوتے نہ انتقام لیتے۔ جب اشارہ
    فرماتے تو پوری ہتھیلی سے اشارہ فرماتے۔ اور تعجب کے وقت ہتھیلی پلٹتے۔ جب
    غضبناک ہوتے تو رُخ پھیر لیتے۔ اور جب خوش ہوتے تو نگاہ پست فرمالیتے۔ آپ
    کی بیشتر ہنسی تبّسم کی صورت میں تھی۔ مسکراتے تو دانت اولوں کی طرح چمکتے۔

    لایعنی بات سے زبان روکے رکھتے۔ ساتھیوں کو جوڑتے تھے توڑتے نہ تھے۔ ہر قوم
    کے معزز آدمی کی تکریم فرماتے تھے۔ اور اسی کو ان کا والی بناتے تھے۔
    لوگوں (کے شر) سے محتاط رہتے اور ان سے بچاؤ اختیار فرماتے تھے۔ لیکن اس
    کے لیے کسی سے اپنی خندہ جبینی ختم نہ فرماتے تھے۔

    اپنے اصحاب کی خبر گیری کرتے۔ اور لوگوں کے حالات دریافت فرماتے۔ اچھی چیز
    کی تحسین وتصویب فرماتے اور بری چیز کی تقبیح وتوہین۔ معتدل تھے ، زیادہ
    نشیب وفراز نہ تھا غافل نہ ہوتے تھے کہ مبادا لوگ بھی غافل یاملول خاطر
    ہوجائیں۔ ہر حالت کے لیے مستعد رہتے تھے۔ حق سے کوتاہی نہ فرماتے تھے نہ
    ناحق کی طرف تجاوز فرماتے تھے، جو لوگ آپﷺ کے قریب رہتے تھے وہ سب سے اچھے لوگ تھے۔ اور ان
    میں بھی آپﷺ کے نزدیک افضل وہ تھا جو سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہو۔ اور سب سے
    زیادہ قدر آپﷺ کے نزدیک اس کی تھی جو سب سے اچھا غمگسار مددگار ہو۔

    آپﷺ اُٹھتے بیٹھتے اللہ کا ذکر ضرور فرماتے۔ جگہیں متعین نہ فرماتے - یعنی
    اپنے لیے کوئی امتیازی جگہ مقرر نہ فرماتے- جب قوم کے پاس پہنچتے تو مجلس
    میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتے۔ اور اسی کا حکم بھی فرماتے۔ ہرجلیس کو اس
    کا حصہ عطا فرماتے ، حتیٰ کہ کوئی جلیس یہ نہ محسوس کرتا کہ کوئی شخص آپﷺ
    کے نزدیک اس سے زیادہ باعزت ہے۔ کوئی کسی ضرورت سے آپﷺ کے پاس بیٹھتا یا
    کھڑا ہوتا تو آپﷺ اتنے صبر کے ساتھ اس کے لیے رکے رہتے کہ وہی پلٹ کر واپس
    ہوتا۔ کوئی کسی ضرورت کا سوال کردیتا تو آپ اسے عطا کیے بغیر یا اچھی بات
    کہے بغیر واپس نہ فرماتے تھے۔ آپﷺ نے اپنی خندہ جبینی اور اخلاق سے سب کو
    نواز ا۔ یہاں تک آپ سب کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ اور سب آپ کے نزدیک
    یکساں حق رکھتے تھے۔ کسی کو فضیلت تھی تو تقویٰ کی بنیاد پر۔ آپﷺ کی مجلس
    حلم وحیا ء اور صبر وامانت کی مجلس تھی۔ اس میں آوازیں بلند نہ کی جاتی
    تھیں۔ اور نہ حرمتوں کا مرثیہ ہوتا تھا - یعنی کسی کی آبروپر بٹہ کا اندیشہ
    نہ تھا- لوگ تقویٰ کے ساتھ باہم محبت وہمدردی رکھتے تھے۔ بڑے کا احترام
    کرتے تھے۔ چھوٹے پر رحم کرتے تھے۔ حاجت مند کو نوازتے تھے اور اجنبی کو انس
    عطا کرتے تھے۔

    آپﷺ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی ، سہل خو اور نرم پہلو تھے۔ جفاجو اور سخت
    خو نہ تھے۔ نہ چیختے چلاتے تھے ، نہ فحش بکتے تھے نہ زیادہ عتاب فرماتے
    تھے۔ نہ بہت تعریف کرتے تھے ، جس چیز کی خواہش نہ ہوتی اس سے تغافل برتتے
    تھے۔ آپﷺ سے مایوسی نہیں ہوتی تھی۔ آپﷺ نے تین باتوں سے اپنے نفس کو محفوظ
    رکھا۔ [۱] ریاء سے [۲ ] کسی چیز کی کثرت سے [۳]اور لا یعنی بات سے ، اور
    تین باتوں سے لوگوں کو محفوظ رکھا۔ یعنی آپﷺ [۱ ] کسی کی مذمت نہیں کرتے
    تھے [۲ ] کسی کو عار نہیں دلاتے تھے [ ۳ ] اور کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے
    تھے۔ آپﷺ وہی بات نوک زبان پر لاتے تھے جس میں ثواب کی امید ہوتی۔ جب آپﷺ
    تکلم فرماتے تو آپﷺ کے ہم نشین اپنے سر جھکالیتے گویا ان کے سروں پر چڑیا
    ہے۔ اور جب آپﷺ خاموش ہوتے تو لوگ گفتگو کرتے۔ لوگ آپﷺ کے پاس گپ بازی نہ
    کرتے۔ آپ کے پاس جو کوئی بولتا سب اس کے لیے خاموش رہتے ، یہاں تک کہ وہ
    اپنی بات پوری کر لیتا۔ ان کی بات ان کے پہلے شخص کی بات ہوتی۔ جس بات سے
    سب لوگ ہنستے اس سے آپ بھی ہنستے ، اور جس بات پر سب لوگ تعجب کرتے اس پر
    آپﷺ بھی تعجب کرتے۔ اجنبی آدمی بات میں جفا سے کام لیتا تو اس پر آپ صبر
    کرتے ، اور فرماتے : جب تم لوگ حاجت مند کو دیکھو کہ وہ اپنی حاجت کی طلب
    میں ہے تو اسے سامان ضرورت سے نواز دو۔ آپ احسان کا بدلہ دینے والے کے سوا
    کسی سے ثناء کے طالب نہ ہوتے۔
    خارجہ بن زیدؓ کا بیان ہے کہ نبیﷺ اپنی مجلس میں سب سے باوقار ہوتے۔ اپنا
    کوئی عضو باہر نہ نکالتے۔ بہت زیادہ خاموش رہتے۔ بلا ضرورت نہ بولتے۔ جوشخص
    نامناسب بات بولتا اس سے زُخ پھیر لیتے۔ آپ کی ہنسی مسکراہٹ تھی۔ اور کلام
    دوٹو ک ، نہ فضول نہ کوتاہ ، آپ کے صحابہ کی ہنسی بھی آپ کی توقیر واقتداء
    میں مسکراہٹ ہی کی حد تک ہوتی۔1

    حاصل یہ کہ نبیﷺ بے نظیر صفاتِ کمال سے آراستہ تھے۔ آپ کے رب نے آپ کو بے
    نظیر ادب سے نوازا تھا حتیٰ کہ اس نے خود آپ کی تعریف میں فرمایا :

    وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ (۶۸: ۴)











    اور یہ ایسی خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے لوگ آپﷺ کی طرف کھینچ آئے۔
    دلوں میں آپﷺ کی محبت بیٹھ گئی۔ اور آپ کو قیادت کا وہ مقام حاصل ہوا کہ
    لوگ آپﷺ پر وارفتہ ہوگئے۔ انہی خوبیوں کے سبب آپ کی قوم کی اکڑ اور سختی
    نرمی میں تبدیل ہوئی یہاں تک کہ یہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوگئی۔

    یاد رہے کہ ہم نے پچھلے صفحات میں آپﷺ کی جن خوبیوں کا ذکر کیا ہے ، وہ آپ
    کے کمال خلق اور عظیم صفات کے مظاہر کی چند چھوٹی چھوٹی لکیر یں ہیں۔ ورنہ
    آپ کے مجد وشرف اور شمائل وخصائل کی بلندی اور کمال کا یہ عالم تھا کہ ان
    کی حقیقت اور تہ تک نہ رسائی ممکن ہے ، نہ اس کی گہرائی ناپی جاسکتی۔

    بھلا عالم وجود کے اس سب سے عظیم بشر کی عظمت کی کنہ تک کس کی رسائی ہوسکتی
    ہے، جس نے مجد وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر اپنا نشیمن بنا یا۔ اور اپنے
    رب کے نور سے اس طرح منو ّر ہوا کہ کتاب ِ الٰہی ہی کو اس کا وصف اور خُلق
    قرار دیا گیا ،یعنی ... 6

    قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

    اللّٰہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی
    إبراہیم وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید ۔ اللہم بارک علی محمد وعلی محمد
    کما بارکت علی إبراہیم وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔

    بشکریہ: محدث فورم


    شاركه على جوجل بلس

    عن Unknown

      تعليقات بلوجر
      تعليقات فيسبوك

    2 comments:

    1. مکرم ومعززسید آصف جلال صاحب گذشتہ پانچ ماہ کےتمام مضامین پڑھےبہت پسند آےمدلل و معلوماتی تھےنئ تحریرحضورصلی الله علیہ وسلم کےاخلاق کریمانہ پر ایک خوبصورت تحریر ہےبقول امام احمدرضابریلویؒ *تیرے خلق کوحق نےعظیم کہا تیری خلق کو حق نے جمیل کیا*کوئ تجھ ساہوا ہےنہ ہوگاشاہ تیرےخالق حسن و ادا کی قسم*وہ خدا نے ہےمرتبہ تجھکو دیانہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا*کہ کلام مجید نےکھائ شاہ تیرے شہر وکلام و بقا کی قسم* اور علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں *تو بر نخل کلیمےبے مہاباشعلہ می ریزی*تو بر شمع یتیمے صورت پروانہ می آی* یعنی جب موسی علیہ اسلام وادی سینا(طور)میں جاتے ہیں تو اے خدا تو انکو اپنے شعلوں سےگرماتا ہےاور اے وادئ بطحاٴقربان جاوٴں تیرے جب تیری باری آتی ہےتو خدا خود پروانے کی صورت کا روپ دھار لیتا ہے*الله تعالی سب مسلمانوں کو اپنے آقاصلی الله علیہ وسلم کی پکی سچی غلامی و محبت نصیب کرےآمین اےالله کروڑوں درود بیھج ہمارےسردار حضرت محمدصلی الله علیہ وسلم پر جو ہمارے دلوں کےطبیب اور انکی دوا ہیں ہمارے جسموں کی عافیت اور انکی شفاٴ ہیں ہماری آنکھوں کانور اورانکی چمک ہیں اےالله آپ صلی الله علیہ وسلم کی آل اور اصحابؓ پردرود بھیج

      ReplyDelete
    2. Online Casino - Amiens Hoppie
      Come on in to our home for the best online casino games. You are sure to have some fun at our casino with over 500 games to choose 온라인 카지노 경찰 from.

      ReplyDelete