جديدنا

مسئلہ ارتقاء اور مسلم مفکرین۔












    مسئلہ ارتقاءکی بابت جب بھی بات کی جاتی ہے تو عام قاری یہ سمجھتا ہےکہ یہ اسلامی تعلیمات کے بر عکس ہے ، اور دوسرے طرف مجوزین یہ کہتے ہیں کہ عالم اسلام اس کی سب سے بڑا ناقد ہے. حالانکہ ایسا نہیں ہے ، اس مسئلہ ہی کو سمجھنے کی ضرورت ہے. مجوزین کے جو عام لکھاری ہیں انہوں نے برگساں پر سخت تنقید کی ہے وہ ایک غیر مسلم مولوی قسم کا آدمی تھا اسے اس مسئلہ کے بارہ میں کوئی پتہ نہیں ،اسی طرح مولانا رومیؒ کا اگر

    حوالہ دیا جاتا ہے تو یہ بات بھی تنقید کا نشانہ بنتی ہے.

    ڈاکٹر نعیم احمد اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ.

    ’’مسلمانوں کی فکری تاریخ میں مسئلہ ارتقاء کی خاص اہمیت رہی ہے. قرآن میں کئی جگہ پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان کو انفس و آفاق پر غور کرنا چاہے. انسان کی خلقت پر بلخصوص غور کرنے کی دعوت دی گئی کہ ٱلَّذِىٓ أَحۡسَنَ كُلَّ شَىۡءٍ خَلَقَهُ ۥ‌ۖ وَبَدَأَ خَلۡقَ ٱلۡإِنسَـٰنِ مِن طِينٍ۬ (٧) ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَهُ ۥ مِن سُلَـٰلَةٍ۬ مِّن مَّآءٍ۬ مَّهِينٍ۬ (٨) ثُمَّ سَوَّٮٰهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِۦ‌ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمۡعَ وَٱلۡأَبۡصَـٰرَ وَٱلۡأَفۡـِٔدَةَ‌ۚ قَلِيلاً۬ مَّا تَشۡڪُرُونَ.(9)


    ترجمہ: جس نے ہر چیز کو بہت اچھی طرح بنایا (یعنی) اس کو پیدا کیا۔ اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا (۷) پھر اس کی نسل خلاصے سے (یعنی) حقیر پانی سے پیدا کی (۸) پھر اُس کو درست کیا پھر اس میں اپنی( طرف سے) روح پھونکی اور تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے مگر تم بہت کم شکر کرتے ہو (۹)

    ابتدائی دور کے چونکہ مسلمان (ایسے علوم و مباحث ) سے نا آشنا تھے اس لیے خلقت انسانی میں ان کی دلچسپی محض ایک مذہبی عقیدہ کی حد تک رہی. مگر جوں جوں اسلام پھیلا اور مسلمانوں کے روابط دوسری تہذیبوں سے استوار ہوئے، اس دلچسپی نے باقاعدہ حیاتیاتی تحقیقات کا رخ اختیار کر لیا.یہی وجہ ہے کہ ہمیں تاریخ اسلام میں مسلمان مفکرین کا ایک لمبا سلسلہ نظر آتا ہے جو ایک ہی مسلسل ارتقائی عمل کے قائل ہیں. یہ ارتقائی عمل ان کے نزدیک جمادات،نبادات اور حیوانات ،سب پر حاوی ہے. ابو یحییٰ قزوینی کی کتاب، عجائب المخلوقات ،فریدالدین عطار کی کتاب،منطق الطیر، ابن وحشیہ کی،نباتی زراعت،ابن عوام کی،کتاب الزرعت، الجاحظ کی،کتاب الحیوان، چند ایسی کتابیں ہیں جو مسلمانوں کی فتوحات کے بعد لکھی گئیں اور ان میں جہاں مختلف پودوں اور جانوروں کی جماعت بندی کی گئی وہیں ان کے فوائد پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی.



    الجاحظ کی کتاب،الحیوان،میں موجود بعض اشارات کو اخوان الصفا نے اپنی تحقیقات کی بنیاد بنایا .اخوان الصفا کے نزدیک ہماری دنیا تین اقالیم سے تشکیل پاتی ہے، اقلیم جمادات،اقلیم نبادات اور اقلیم حیوانات ،ان تینوں اقالیم میں ارتقاء کا اصول کار فرما ہے. نچلی اقلیم سے اوپر والی اقلیم کی ابتداء ہوتی ہے. جمادات کی انتہا مرجان (Coral) ہے،نبادات کی آخری منزل کھجور ہے، جس میں ایک بنیادی حیوانی صفت یعنی جنسی تخصیص پیدا ہو جاتی ہے. یہاں سے حیوانی ارتقاء کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو کہ بن مانس (Ape) تک پہنچتا ہے اور اس کے بعد انسان پیدا ہوتا ہے اور انسانوں کی منزل آخر پیغمبر ہے جہاں سے آگے اقلیم ملائکہ شروع ہو جاتی ہے. اخوان الصفا کے نظریات کو بعد ازاں ابن مسکویہ نے اپنایا اور ان کی تشریح و توجیہ کی.(برگساں کا فلسفہ)



    مختلف مذاہب میں تصور وحدت الٰہ پایا جاتا ہے - اس طرح کائنات میں پنہاں وحدت کے تصورات بھی ملتے ہیں - ان میں رومن" ہمہ روحیت" کے قائل ہیں . ان کے نزدیک پوری کائنات میں ایک عضو یاتی وحدت پائی جاتی ہے اور تمام مظاہر کائنات زندہ و متحرک ہیں . مولانا رومی کے اشعار میں ہمیں ایک نہایت دلاویز تشریح ملتی ہے.

    خاک و باد و اب و آتش بندہ اند

    با من و تو مردہ و بحق زندہ اند

     خاک و باد و آب و نار باشرر

    بے خبر از ما و از حق با خبر




    عارف رومی نے قرآن کی ایک آیت کو جس میں علم امر اور عالم خلق کا ذکر کیا،بنیاد بنا کر اپنا نظریہء ارتقاء پیش کیا. روح رومی کے نزدیک قدیم ہیں اور عالم امر میں شروع سے موجود تھیں. یہ عالم امر اپنی نوعیت و ماہیت کے اعتبار سے ہمارے احاطہ ادراک میں نہیں آسکتا. چنانچہ اس کو وو"عدم" یا"نیستاں" سے بھی تعبیر کرتے ہیں. روح اس "نیستاں" سے"اسفل السا فلین" میں جا گرتی ہے--کیوں؟ یہ ان کے نزدیک اسرار الہی ہے.

    یہ "اسفل السافلین " اقلیم جمادات کا پست ترین درجہ ہے. یہاں ایک فراق کی کیفیت روح کو مضطرب و بے چین کیے رکھتی ہے. وہ ہر لحظہ اپنے مسکن ابدی کی طرف مراجعت اور وصل الی الاصل ہونے کی سعی و جہد میں مصروف رہتی ہےمثنوی کا آغاز ہی ان اشعار سے ہوتا ہے:(حوالہ بالا ) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اسے عالم امثال سے تعبیر کیا ہے ،اس کا ذکر بوجہ طوالت کہیں اور مضمون میں کریں گے . عارف رومی کے اشعار یہ ہیں



    بشنواز نےچوں حکا یت می کند ---وزجدائی ہا ،شکایت می کند
    کز نیستان تا مرا بیر یدہ اند ---از نفیرم مرد و زن نا لیده اند
    ہر کسے کو دور ما نداز اصل خویش --باز جوید روزگار وصل خویش
    سر من از نالہء من دورنیست ---لیک چشم و گوش را آن نور نیست
    تن زجان و جاں زتن مستور نیست ---لیک کس را دید جاں دستور نیست


    ترجمہ: بانسری سے سن کیا بیا ن کرتی ہے-اورجدائیوں کی(کیا) شکایت کرتی ہے.

    کہ جب سے مجھے بنسلی سے کا ٹا ہے-میرے نالہ سے مرد و عورت (سب) روتے ہیں


    جو کوئی اپنی اصل سے دور ہو جاتا ہے-وہ اپنے وصل کا زمانہ پھر تلاش کرتا ہے.


    میرا راز، میرے نالہ سے دور نہیں-لیکن آنکھ اور کان کے لیے وہ نور نہیں.


    بدن ،روح سے اور روح، بدن سے چھپی ہوئی نہیں ہے --لیکن کسی کے لیے روح کو دیکھنے کا دستور نہیں.




    عارف رومی عالم امر کو "نیستاں" سے تعبیر کرتے ہیں جو کہ نا معلوم ہونے کے ناتے عدم ہے . اس کو بانسوں کی سر زمین بھی کہا جاسکتا ہے جس سے کہ" نے"(بانسری ) جدا ہوتی ہے اور اس کے فگار  سے نالہء فراق بلند ہوتا ہے. یہ دراصل روح ہے جو کہ عالم امر سے نکل کر عالم خلق میں آگرتی ہے . اب یہاں سے اس کا ارتقائی عمل شروع ہوتا ہے اور عشق اس کی قوت محرکہ بن جاتا ہے.



    رومی کا اشعار کا ترجمہ.-پہلے وہ جماد کی اقلیم میں آیا اور جمادی(اقلیم) سے نباتی (اقلیم) میں آیا. سالہا نباتی اقلیم میں عمر بسر کی اور سرکشی کی وجہ سے اپنی جمادی(زندگی) کو بھلا دیا اور نباتی(اقلیم)جب حیوانی (اقلیم) میں آئ اس کو نباتی(اقلیم) کا حال کبھی یاد نہ آیا . سوائے اس میلان کے کہ جو اس کی جانب ہے، خصوصاّ بہار اور ضیمراں کے موسم میں، جیسا کہ بچوں کا ماؤں کی طرف میلان کہ وہ دودھ پینے میں اپنے میلان کا خود راز نہیں جانتے. وہ اس طرح ایک اقلیم سے دوسرے اقلیم میں چلتا رہا. یہاں تک کہ وہ اب عقل مںد،دانا اور قوی ہو گیا ہے.(مفتاح العلوم شرح مثنوی مولانا روم )



    مثنوی مولوی معنوی میں اس طرح ہے -

    آمده اول به اقلیم جماد ---وز جمادی در نباتی اوفتاد
    سالہا اندر نباتی عمر کرد---وزنباتی یاد ناورد از نبرد
    وز نباتی چوں بہ حیوانی فتاد---نامدش حال نباتی ہیچ یاد
    جز ہماں میلے کہ دارد سوئے آن--- خاصہ دروقت بہار ضیمراں
    ہمچو میل کودکاں بامادراں---سر میل خود نہ دانددرلباں
    بازاز حیواں سواںسانیش ---میکشدآں خالقے کہ دانیش
    ہمچنیں اقلیم تا اقلیم رفت-- تا شداکنوں عاقل دودانا وزفت



    انسان شروع میں جماد تھا ،جماد سے نبات بنا. سالوں نبات رہا ، لیکن نباتی زندگی اس یاد نہیں ہے -ہاں سوائے اس میلان کے جو اسکو نبات کیطرف ہے خصوصاّ موسم بہار میں ضیمراں کے کھلنے کے وقت . جس طرح کا بچوں کا ماؤں کیطرف میلان ہوتا ہے. شیر خوارگی کے زمانہ میں اپنے میلان کا راز نہیں جانتا.پھر حیواں سے انسان کی جانب، اس کو وہ خدا لےجاتا ہے جو اسکو جانتا ہے . اس طرح وہ ایک عالم سے دوسرے عالم کیطرف چلتا رہا .یہاں تک وہ عاقل و دانا اور فربہ بن گیا .(کتاب محولہ بالا-ص-٢١-ناشران حامد اینڈ کمپنی لاہور )




    عارف رومی کے ہاں ارتقائی عمل کی قوت محرکہ عشق ہے،اپنے سے بلند تر میں جذب ہو کر ارتقاء کی اگلی منزل پر پہنچنے کی تڑپ ہے. جب بیج زمیں میں بویا جاتا ہے تو متعدد جامد مادے اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں تاکہ اس کے اندر جذب ہو کر قوت نمو حاصل کر سکیں.

    نان مردہ چوں حریف جان شد
    زندہ گردد نان و عین آن شد
    ہیزم تیرہ حریف نار شد
    تیرگی رفت و ہمہ انوار شد



    (دیکھو ) بے جان روٹی جب(روٹی کھانے والی کی ) جان کے ساتھ مصاحب ہو جاتی ہے، تو وہ زندہ (جسم کا جز ) بن جاتی ہے اور اس کے ساتھ متحد ہو جاتی ہے. ایک بے نور لکڑی جب آگ کی مصاحب ہوئی تو اس کی ظلمت جاتی رہی اور وہ سراسر شعلہ، آتش بن گئی) تمام اقالیم ہستی میں یہ قوت جذب و عشق جاری و ساری ہے. اپنے سے اعلی و ارفع میں اپنی ہستی فنا کر کے بقا حاصل کرنے کا رجحان ہی ارتقاء کا بنیادی محرک ہے اور اسی وجہ سے انسان ہزاروں لاکھوں سال کا سفر طے کر کے"اسفل السافلین" سے"احسن التقویم"کے مقام پر پہنچا ہے.



    صد ہزاروں سال بودم در مطار ---ہمچو ذرات ہوا بے اختیار.



    برگساں کے ہاں ہمیں جو بنیادی محرک ارتقاء نظر آتا ہے وہ قوت تخلیق ہے یا نئی سے نئی صورت حیات پیش کرنے کی لگن ہے . یہ جذبہ تخلیق ایسے مصور کی کوش سے مشابہ ہے جو کہ محض اپنی داخلی تحریک کی شدت سے مجبور ہو کر کوئی شاہکار بنانے میں مشغول ہو اور اسے خود بھی علم نہ ہو کہ یہ کس طرح کا شاہکار بنے گا. رومی نے ارتقاء کی جو تشریح پیش کی ہے وہ ایک اندھے اور بے بصر ارتقاء کی نہیں بلکہ ایک بامقصد ارتقاء کی تشریح ہے. چنانچه ہم کہہ سکتے ہیں کہ برگساں کے حیاتی فلسفے کا لازمی نتیجہ قنوطیت اور نامیدی ہے گزشتہ تمام ارتقاء کی داستان انسان پر آکر منتج ہو جاتی ہے. لیکن انسان سے آگے کوئی منزل مقصود نہیں،ارتقاء اگر جاری ہے تو بے نشان منزلوں کی طرف! جب تک انسان زندہ ہے،تخلیقی ارتقاء کی سعی و جہد میں مصروف ہے لیکن جب مر جاتا ہے تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے. اس کے بر عکس رومی ان تمام اقالیم کا ذکر کرتے ہیں جن سے کہ روح انسانی سفر کرتی ہوئی موجودہ منزل تک ائی ہے اور پھر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ موت کے بعد بھو روح کا سفر جاری رہے گا.



    اپنے اشعار میں رومی فرماتے ہیں.

    تو ازاں روزے کہ ہست آمدی--- آتشی یا خاکی یا بادی بدی

    تم جس دن سے کہ وجود میں آے،پہلے آگ یا خاک یا ہوا تھے . اگر تمہاری وہی حالت قائم رہتی تو یہ ترقی کیونکر نصیب ہو سکتی. بدلنے والے نے پہلی ہستی بدل دی اور اس کی جگہ دوسری ہستی قائم کر دی اس طرح ہزاروں ہستیاں بدلتی چلی جائیں گی،یکے بعد دیگرے اور پچھلی پہلی سے بہتر ہو گی. یہ بقا تم نے فنا کے بعد حاصل کی ہے،پھر فنا سے کیوں جی چراتے ہو. ان فناؤں سے تمہیں کیا نقصان پہنچا ہے جو اب بقا سے چمٹے جاتے ہو. جب دوسری ہستی پہلی ہستی سے بہتر ہے تو فنا کو ڈھونڈو اور انقلاب کندہ کو پوجو. تم سینکڑوں قسم کے حشر دیکھ چکے، ابتدانے وجود سے اس وقت تک! تم پہلے جماد تھے پھر تم میں قوت نمو پیدا ہوئی، پھر تم میں جان آئ،پھر عقل و تمیز ،پھر حواس خمسہ کے علاوہ اور حواس حاصل ہویے . جب فناؤں میں تم نے یہ بقائیں دیکھیں، تو جسم کے بقا پر کیوں جان دیتے ہو. نیا لو اور پرانا چھوڑ دو کیونکہ تمہارا ہر سال پار سال سے اچھا ہے.(ترجمہ مولنا شبلی نعمانی کی کتاب -"سوانح مولانا روم "--- ماخذ "برگساں کا فلسفہ" از ڈاکٹر نعیم احمد)





    شاركه على جوجل بلس

    عن Unknown

      تعليقات بلوجر
      تعليقات فيسبوك

    0 comments:

    Post a Comment