جديدنا

درس نظامی کے نصاب اور اصول نصاب سازی کا جائزہ




    تعلیم کا اولین مقصدہمیشہ فرد کی صلاحیتوں کی بھرپور نشوو نما رہا ہے تاکہ وہ معاشرے کا ایک مفید فرد بن کر نہ صرف معاشرے اور عصری تقاضوں کی مناسبت سے زندگی گزارنے کے قابل ہو بلکہ اس کی بدولت معاشرہ بھی زیادہ سے زیادہ ترقی کرے ، اس مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی نظام تعلیم کا نصاب مرکزی کردار ادا کرتا ہے کیونکہ تعلیمی عمل نصاب ہی کا مرہون منت ہے اس لئے نصاب سازی کو ایک مسلسل متحرک عمل










    قرار دیا جاتا ہے تا کہ بدلتے ہوئے تقاضوں ، معاشرتی اور انفرادی ضروریات پر خاطر خواہ توجہ دی جاسکے چنانچہ نصاب سازی  (Curriculum Development) نظام تعلیم کا اہم شعبہ ہے جس میں مقاصد نصاب (Objectives of Curriculum)کو سامنے رکھ کر نصاب سازی کی جاتی ہے۔

     پاکستان کے دینی مدارس میں بنیادی طور پرمغل حکمران اورنگ زیب عالمگیر[متوفی:1707ء] کے دور میں ملا نظام الدین سہالوی [متوفی:1748ء] کا مرتب کردہ نصابی ماڈل ’’ درس نظامی ‘‘ نافذہے۔درس نظامی کے ساتھ ارباب مدارس کا ایک جذباتی لگاؤ ہے۔ ذیل میں خالص دینی مدرسے درس نظامی کے اصول نصاب سازی اور نصاب کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

    درس نظامی کا تاریخی پس منظر:
     برصغیر پاک و ہند میں اسلامی حکومت کی بنیاد سلطان محمود غزنوی [متوفی: اپریل 1030]نے رکھی تھی، اس کے زیر اثر ہندوستان میں دینی تعلیم کا جو نصاب تشکیل پایا تھا اس میں تفسیر ، حدیث،فقہ، اصول فقہ، تصوف، کلام ،عربی ادب،نحواور منطق کے مضامین شامل تھے ۔ اس نصاب تعلیم میں مذہبی مضامین کا حصہ زیادہ تھا ۔اس نصاب میں سلاطین غزنویہ[1451- 1526ء] کے سلطان سکندر لودھی کے دور حکومت  [1489-1550ء] تجدیدی کوشش کی گئی اور مذہبی علوم کے مقابلے میں عقلیات کا اضافہ کیا گیا ۔

    برصغیر کے مدارس کے نصاب تعلیم میں مغلیہ دور حکومت کے اکبر اعظم [م: 1605ء]کے عہد میں بڑی نمایاں ترقیات ہوئیں۔وہ مذہبی آزادی کازبردست حامی تھا چنانچہ اس نے مذہبی تفریق کے بغیر ہر مذہب اور فن کے ماہرین کو اپنے دربار میں جگہ دی۔اس پس منظر میں اس دور کے مدارس کے نصاب میں بھی بڑی ہمہ گیری پیدا ہوئی تھی چنانچہ نصاب میں شہریت ، معاشیات، فلکیات،طبعیات، حساب اور طب بلکہ موسیقی تک کو نصاب کا حصہ بنا دیا گیاتھا چنانچہ ہندوستان کے کئی علماء کافن موسیقی سے مناسبت کے تذکرے کتب تراجم میں ملتے ہیں۔ہندوستان کے مشہور مسلم صوفی اور شاعرحضرت امیرخسرو بھی موسیقی میں کمال رکھتے تھے۔ اکبر بادشاہ کے دور کے مشہورمؤرخ ملا عبدالقادر بدایونی کوبھی موسیقی سے فنی مناسبت تھی  ۔

    نصاب میں اس وسعت کے نتیجے میں ہر گریجویٹ کو اپنے فطری ذوق و دلچسپی کی بنیاد پر آگے چل کر کسی نہ کسی میدان میں اختصاص کا مقام حاصل کرنے کا موقع ملتا اور نام کماتا۔ نظام تعلیم ایک ہی ادارہ میں پڑھنے والے مختلف طلباء کو مضامین کے انتخاب کا وسیع موقع فراہم کرتا کہ ہر طالب علم اپنی خواہش اور فطری صلاحیتوں کے مطابق اپنے حسب منشاء مضامین کا انتخاب کرے چنانچہ ڈاکٹر محمود غازی ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کے زیر سرپرستی اہل علم کے ہاتھوں تشکیل دیئے جانے والے نصاب تعلیم کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ نظام تعلیم یا نصاب تعلیم دین ودنیا دونوں کی جامعیت کا آیئنہ دار تھا۔ اس نظام تعلیم نے مجدد الف ثانی جیسے بزرگ بھی پیدا کیے یہ اور نواب سعد اللہ خان دونوں ایک ہی استاد کے شاگرد تھے۔ نواب سعد اللہ خان وہ سیاست د ان ہیں جو شاہ جہان کے دور میں پورے ہندوستان ( یعنی موجودہ افغانستان ، پاکستان، موجودہ ہندوستان ، موجودہ بنگلہ دیش، موجودہ سری لنکا اور موجودہ نیپال) کم ازکم یہ چھے ملک اتنی بڑی سلطنت میں شامل تھے جس کا نواب سعداللہ خان کم از کم اڑتالیس سال وزیراعظم رہا ہے ، گویا بڑی بڑی سلطنتیں چلانے والے مدبرین اور اعلی سے اعلی دینی قیادتیں فراہم کرنے والے  بزرگان (جو مجدد الف ثانی کے درجے کے لوگ ہوں) اسی نظام تعلیم نے پیدا کیے تاج محل جس انجنیئر نے بنایا وہ اسی نظام تعلیم کاپڑھا ہوا تھا جس سے اس نے تاج محل جیسی عمارت بنائی جو آج دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک نمایاں عجوبہ ہے ۔

    اکبر اعظم کے دور کی روایت کے خلاف مدارس کے نصاب میں بعد ازاں مغل حکمران اورنگ زیب عالمگیر [م :فروری 1707ء] کے دور میں Uٹرن کی صورت نظر آتی ہے جب اس بادشاہ کی معاونت سے ملانظام الدین سہالوی [م:مئی1748ء]  نے لکھنؤ میں''فرنگی محل''نامی جگہ اپنا مدرسہ قائم کیا  جو فرنگی محل کی نسبت سے تاریخ میں مدرسہ فرنگی محل مشہور ہوا۔اس مدرسے کے لئے انہوں نے ایک نصاب بنایا جو ان کے نام کی مناسبت سے ''درس نظامی'' کے عنوان سے مشہور ہوا ۔پاکستانی مدارس کے نصاب کی بنیاد یہی درس نظامی ہے جو قدرے ترمیم و اضافہ کے ساتھ نافذ ہے، ملا نظام الدین سہالوی کا مرتب کردہ نصاب درج ذیل ہے ۔

    ۱۔  تفسیر:جلالین:جلال لدین سیوطی(م۹۱۱ھ/ 1505ء) وجلال الدین محلی(م۸۶۴ھ؍1459ء)، بیضاوی: ناصر الدین بیضاوی (م۶۸۵ھ ؍1286ء)

    ۲۔  حدیث:  مشکوۃ المصابیح (مکمل):ابوعبداﷲمحمد بن عبداﷲ(م۷۶۰ھ)

    ۳۔  فقہ:  ہدایہ: علامہ برہان الدین مرغینانی(م۵۹۳ھ؍1197ء)، شرح وقایہ(ثانی): عبیداﷲبن مسعود صدرالشریعہ (م۷۴۷ھ؍ 1346ء)

    ۴۔  اصول فقہ: توضیح وتلویح:سعدالدین تفتازانی (م۷۹۲ھ ؍1389ء)، نورالانوار:شیخ احمد بن ابی سعید ملا جیون(م۱۱۳۰ھ ؍ 1718ء)، مسلم الثبوت:قاضی محب اللہ بہاری (م۱۱۱۹ھ ؍1707ء)

    ۵۔  نحو: نحومیر:سید شریف جرجانی (م۸۱۶ھ ؍1413ء)، شرح مائۃ عامل:حسین بن عبداللہ نوقانی (م۹۲۶ھ؍ 1520ء)، ہدایۃ النحو:ابوحیان،محمد بن یوسف بن علی (م۷۴۵ھ؍1344ء)، کافیہ :ابن حاجب (م۶۴۶ھ؍ 1249ء)، شرح جامی : نور الدین عبدالرحمن جامی(م۸۹۸ھ؍1492ء)

    ۶۔  صرف:  میزان:ملاحمز ہ بدایونی،منشعب :ملا حمیدالدین کاکوری (م۱۲۱۵ھ ؍1801ء)، صرف میر:سید شریف جرجانی (م۸۱۶ھ ؍1413ء)، پنج گنج:سراج الدین اودھی(م۷۵۸ھ)، زبدہ:ظہیربن محمودبن مسعود علوی، فصول اکبری:قاضی علی اکبرحسینی آلہ آبادی(م۱۰۹۰ھ؍1678ء)، شافیہ :ابن حاجب(۶۴۶ھ؍1249ء)

    ۷۔  بلاغت: مختصرالمعانی:سعدالدین تفتازانی(۷۹۶ھ ؍1389ء)، مطول: سعدالدین مسعودبن عمرتفتازانی(م۷۹۲ھ ؍1389ء)

    ۸۔  کلام:  شرح عقائد نسفی: سعد الدین تفتازانی ، شرح عقائدجلالی:جلال الدین دوانی(م۹۰۸ھ؍1502ء)، شرح مواقف:سید شریف جرجانی(م۸۱۶ھ ؍1413ء)، رسالہ میرزاہد:میرمحمدزاہدہروی(م۱۱۰۱ھ ؍1690ء)

    ۹۔  منطق: قطبی: قطب الدین رازی،سلم العلوم:قاضی محب اللہ بہاری، میرقطبی:میرسید شریف جرجانی، صغریٰ:میر سید شریف جرجانی(م۸۱۶ھ؍1413ء)، کبریٰ:میر سید شریف جرجانی(م۸۱۶ھ؍1413ء)، ایساغوجی:اثیرالدین ابہری (۷۴۵ھ؍ 1344ء)، تہذیب:سعدالدین تفتازانی(م۷۹۲ھ؍1389ء)، شرح تہذیب:عبداللہ یزدی(۹۸۱ھ؍1575ء)

    ۱۰۔  فلسفہ /حکمت:  شرح ہدایۃ الحکمۃ(میبذی): میر حسین میبذی(م۱۰۹۶ھ؍1685ء)، صدرا:صدرالدین محمد بن ابراہیم (م۱۰۵۱ھ؍1640ء)، شمس بازغہ : ملا محمود بن شیخ محمد بن شاہ محمد فاروق جون پوری (م۱۰۶۲ھ؍1652ء)

    ۱۱۔  ریاضی: خلاصہ الحساب:بہاء الدین عاملی (م۱۰۳۱ھ ؍1622ء)، تحریر اقلیدس:خواجہ نصیرالدین طوسی(م۶۷۲ھ ؍ 1275ء)، تشریح الافلاک:بہاء الدین عاملی (م۱۰۳۱ھ ؍1622ء)، رسالہ قوشنجیہ: علاء الدین  قوشنجی  (م۸۷۹ھ ؍ 1474ء)،  شرح چغمینی:علامہ موسٰی پاشارومی(م۸۲۳ھ ؍1437ء)

    درس نظامی پر تبصرہ وجائزہ:
    درس نظامی پر تبصرہ وجائزہ  کو درج ذیل عناوین و تفصیل کے تحت بیان کیا جاتا ہے:
    ۱:  مضامین اور کتابوں کی تعداد:
     گیارہ مضامین اور اس کے لئے مقررہ تینتالیس کتب پر مشتمل اس نصاب میں معقولات کی کتابوں کی تعداد بیس تھی جن میں سے منطق کی آٹھ،حکمت کی تین،کلام کی چار اور ریاضی کی پانچ کتابیں شامل تھیں۔اس طرح نصاب کا تقریبا نصف حصہ علوم عقلیہ پر مشتمل تھا ۔ اس کے بعدعلوم لسانیات کا درجہ تھاجس میں چودہ کتابیں شامل تھیں جن میں سے صرف کی سات ،نحو کی پانچ اور بلاغت کی دو کتابیں شامل تھیں۔علوم عالیہ یعنی خالص دینی مضامین کی کل نوکتابیں تھیں جن میں سے فقہ پر دو(وہ بھی پوری نہیں پڑھائی جاتی تھیں)،اصول فقہ میں چار، تفسیر میں دو اور حدیث میں ایک کتاب شامل تھی اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ خالص دینی کتابوں کی تعداد سب سے کم ہی نہیں تھی بلکہ ان میں سے بیشتر کتابوں کے صرف منتخب حصے پڑھائے جاتے تھے ۔
    ۲:  مضامین کاتناسب :
     نصاب میں شامل علوم کا باہم اجتماعی تناسب اعداد و شمار میں درج ذیل ہے:



    ۳:  مضامین کے لئے کتابوں کے انتخاب کے اصول:
     ملانظام الدین سہالوی نے کتابوں کے انتخاب کے لئے درج ذیل اصول اپنائے :
    الف: مشکل ترین کتاب:کوشش کی گئی کہ ہر فن کی وہ کتابیںلی جائے کہ اندازِ بیان کے اعتبار سے اس فن میں اس سے زیادہ مشکل اور دقیق کتاب نہ ہو حتی کہ اس مقصد کے لئے چیستان(پہیلی)قسم کی کتابیں تلاش کر کرکے لیں ۔
    ب: مختصر ترین کتاب :مشکل ترین کتاب کے انتخاب کی خاطر جامع اور مختصر ترین کتابوں کے انتخاب کی کوشش کی گئ۔تاکہ کم سے کم الفاظ میں جب موضوع کا مواد بیان کیا جائے گا تو کتاب کی عبارت اختصار کی وجہ سے دقیق ہوجائے گی ۔مذکورہ بالا کی وضاحت کے لئے بطور نمونہ صرف ایک کتاب (کافيہ ) كا جائزہ پیش کیا جاتا ہے : اس کتاب کا موضوع عربی گرامر(نحو) ہے ۔

     یہ تیرہویں صدی عیسوی کے مشہور مصری مالکی عالم ابن حاجب(متوفی ۶۴۶ھ؍1249ء)کی تصنیف ہے۔بنیادی طور پرتیرہویں صدی میں لکھی گئی یہ کتاب ایک صدی پہلے یعنی بارہویں صدی عیسوی کے مشہور معتزلی عالم جاراﷲزمحشری(متوفی۵۶۸ھ؍1134ء)کی عربی گرامرمیں تصنیف’’المفصل‘‘کے مضامین کا نچوڑ بیان کیا گیا ہے۔کافیہ اس دور کے اندازتحریر کی نشانی ہے کہ جب عالم اسلام میںدرسی کتب کی تصنیف میں پیچیدہ اور پہیلیوں کی حد تک مشکل انداز اپنانا کمال سمجھاجاتا تھایہی وجہ ہے کہ ابن الحاجب کو اس کتاب کی تصنیف کے بعد اس کی تشریح و توضیح میں خود اس کی شرح لکھنی پڑی۔اس مشکل کتاب کے پیچیدہ عبارتوںکی تشریح کے لئے ہردور میں شروحات لکھی گئیں لیکن شاید یہ بات تعجب سے پڑھی جائے کہ بعض علماء کی اس کتاب سے اتنی عقیدت بڑھی کہ انہوں نے اسے   تصوف کی کتاب قرار دے کر نحوی انداز کی تشریح کے بجائے اس کے عبارت کی تصوفانہ تشریح کی ۔A4 سائز صفحات میں اگر16فانٹ سے لکھا جائے تو اصل کتاب کا حجم چالیس صفحات سے زیادہ نہیں ہوگا لیکن اپنے مخصوص انداز بیان کی وجہ سے اس کتاب کے ایک ایک جملے کی وضاحت میں اساتذہ کے کئی کئی دن صرف ہوجاتے ہیں اور اس طرح پورے تعلیمی سال میں بڑی مشکل سے اس کی تدریس مکمل ہوجاتی ہے۔یہ کتاب استخراجی طریقے کے بجائے استقرائی طریقے پر ہے اس لئے اس طرح کتاب کے پڑھنے سے طلباء میں نحوی استنباط و استخراج کا ملکہ پیدا نہیں ہوتا۔
    ملحوظ رہے کہ مذکورہ بالا کتاب مدارس کے ثانویہ خاصہ ( انٹر میڈیٹ) سال اول میں پڑھائی جاتی ہے۔

    ۴: درس نظامی کی تشکیل کے مقاصد :
    درس نظامی میں منتہی کتابوں میں حتی الامکان ہر فن کی وہ کتابیں درس میں رکھی گئیں جو اس فن میں مشکل کتاب شمار ہوتی تھی ۔ ملا نظام الدینؒ کا خیال تھا کہ کوئی کتاب جتنی مشکل ہوگی اتنی ہی زیادہ محنت اسے سمجھنے کے لئے کرنی پڑے گی اور اسی قدر فکر کی پرواز بلند ہوگی، نظر گہری ہوگی اورقوتِ فہم بڑھے گی۔ جو مقصد مشکل و دقیق کتابیں پورا کرتی ہیں وہ مختصر کتابوں سے ہی پورا ہوتا ہے اس لئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہر فن کی مختصر ترین کتاب نصاب میں شامل کی گئیں۔ دقیق ہونے کے ساتھ ساتھ کتاب اگر مختصر اور مجمل ہو تو قوت فکر کی اچھی طرح ورزش ہوتی ہے اور جتنی زیادہ سخت ورزش ہوگی اتنی ہی زیادہ قوت فہم و فراست بڑھے گی اس طرح درس نظامی کے تشکیل کے درج ذیل دو مقاصد سامنے آتے ہیں:
    الف: قوت مطالعہ کو پروان چڑھانا: ملانظام الدین سہالویؒ کے مدّنظر یہ بات تھی کہ اس قسم کے مشکل اور دقیق نصاب کو جب طلباء پڑھ کر فارغ ہوں تو ان میں کمال درجے کا قوت مطالعہ پیدا ہوگا اور ان کو کسی بھی مشکل سے مشکل کتاب سے استفادہ کرنا ان کے لئے مشکل اور ناممکن نہ ہوگاچنانچہ اس نصاب کے پڑھنے سے کسی مخصوص فن میں کمال حاصل نہیں ہوتا تھا لیکن یہ صلاحیت ضرور پیدا ہوتی تھی کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد جن فن میں چاہے آئندہ محض اپنی محنت سے طالب علم اس میں اچھی طرح کمال پیدا کرسکتاتھا ۔
    ب: فکر و نظر کی گہرائی:  اس قسم کے گہرے نصاب کو سمجھنے کے لئے طالب علموں کو زیادہ محنت کرنی پڑے گی اورقوت فکر کی اچھی ورزش ہوگی اور جتنی زیادہ سخت ورزش ہوگی اسی قدر فکرونظر(عقل نظری) کی گہرائی پیدا ہوگی۔فکر و نظر یعنی عقل نظری نشوونما درس نظامی کی تشکیل کی فلسفیانہ بنیاد تھی۔

    درس نظامی کے مذکورہ بالا مقاصد کا فلسفہ تعلیم کی روشنی میں جائزہ:
    تعلیم کا مقصد ایک طرف نئی نسل کو ثقافتی سرمایہ منتقل کرنا ہے تو دوسری طرف فرد کے قوت فکرکی نشوونما مقصود ہے ۔ قوت فکر میںعقل نظری اور عقل استقرائی دونوں کی نشوونما شامل ہے۔عقل نظری کا تعلق منطق و فلسفہ سے ہے جب کہ عقل استقرائی کا تعلق طبیعیات،کیمیا اور حیاتیات وغیرہ کے طبعی علوم اور تاریخ و اجتماعیات وغیرہ کے عمرانی علوم سے ہے  ۔  ملا نظام الدین ؒنے اسے صرف عقل نظری کی نشوونما تک محدود رکھا اور ان کے نزدیک تعلیم کا اصل مقصد عقل و فکر و فہم کی نشوونما تھایہی وہ فلسفہ تھا جس کی بنیاد پردرس نظامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔نصاب کی تشکیل میں اس فلسفیانہ بنیاد(عقل نظری)کی وجہ سے ملا نظام الدینؒ نے نہ تو منطق و فلسفے کے طبعیات و حیاتیات وغیرہ کے علوم درس میں شامل کئے، اور نہ ہی تصوف و اخلاق کی کوئی کتاب رکھی۔ اس طرح عقل استقرائی سے متعلق مضامین کو شامل نہ کرنے کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔

    ۵: نصابی کتابوں کے انتخاب میں وسعت ظرفی:
    ملا نظام الدین سہالویؒ نے درس نظامی کی تشکیل میں انتہائی مذہبی وسعت ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے چنانچہ فقہ حنفی کے مقلد ہونے کے باوجود انہوں نے غیرحنفی اور غیر سنی مسلک کے مصنفین کی کتابوں کو بھی نصاب میں شامل کیا۔ تفسیر قرآن کے نصاب کے لئے مقررہ تفاسیر(جلالین کے دونوں مصنفین جلال لدین سیوطیؒ [م: ۹۱۱ھ/ 1505ء] وجلال الدین محلیؒ[م:۸۶۴ھ؍1459ء]اوربیضاوی کے مصنف ناصر الدین بیضاویؒ [م:۶۸۵ھ ؍ 1286ء] اورحدیث کے نصاب کی واحد مقررہ کردہ کتاب مشکٰوۃ المصابیح کے مصنف ولی الدین عراقی[م:۷۶۰ھ] شافعی علماء ہیں۔عربی گرامر(نحو)  میں شرح مائۃ عامل رکھی جس کے متن ’’مائۃ عامل‘‘ کے مصنف عبد القاہر[م:۱۰۸۱ء] بھی شافعی المسلک تھے ۔ نحو کے نصاب میں’’کافیہ‘‘ اور صرف کے نصاب میں’’شافیہ‘‘ ہر دو کتابوںکے مصنف ابن حاجب[م:۶۴۶ھ/1249ء] مالکی المسلک تھے۔سنیوں کے علاوہ شیعہ حضرات کی کتب بھی نصاب میں رکھیں چنانچہ فلسفہ و حکمت میں صدرا نامی کتاب کے مصنف صدرالدین شیرازی[م:۱۰۵۱ھ/ 1640ء]،ریاضی کی کتاب خلاصۃالحساب اورتشریح الافلاک نامی کتاب کے مصنف بہاء الدین عاملی [م:۱۰۳۱ھ/ 1622ء]،تحریراقلیدس کے مصنف خواجہ نصیرالدین طوسی[م۶۷۲ھ/ 1275ء]، کے مصنف شیعہ علماء ہیں۔منطق میں قطبی نامی کتاب کے مصنف  قطب الدین رازی[م:۸۶۶ھ/1364ء]بھی ایک تحقیق کے مطابق شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔

    اگرچہ ملانظام الدین نے فقہ حنفی کی دو کتابیں( ہدایہ علامہ برہان الدین مرغینانی[م:۵۹۳ھ؍1197ء]اورشرح وقایہ عبیداﷲبن مسعود، صدرالشریعہ[م:۷۴۷ھ؍1346ء])نصاب میں شامل کیںتاہم شرح وقایہ میں صرف عبادات کا حصہ اور ہدایہ لیا اوراس میں سے معاملات کا حصہ چھوڑ دیا جب کہ ہدایہ میں عبادات کا حصہ چھور کر صرف معاملات کا حصہ نصاب میںلیا۔فقہ کی ہر کتاب دو حصوں(عبادات و معاملات)پر مشتمل ہوتی ہے اس طرح دونوں کتابوں کا ایک ایک حصہ لیا اور ایک ایک حصہ چھوڑ دیا یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور استاذ اور بعد ازاں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن شعبہ دینیات کے سربراہ مشہور اسلامی مؤرخ سید علامہ مناظر احسن گیلانی [م:5جون1956ء]کے بقول فقہی مسائل کی تقسیم کے لحاظ سے دیکھا جائے تو گویا عملافقہ کی ایک ہی کتاب کا مواد پڑھایا جاتا ہے ۔

    ۶: فرقہ وارانہ رواداری:
     درس نظامی میں اصلاح و تجدید کی تحریک ، ندوۃ العلماء ہند کے بانی اور مشہور اسلامی رائٹر علامہ شبلی نعمانی[م: نومبر1914ء] کے مطابق مختلف مسالک کی کتابوں کونصاب میں شامل کرنے کایہ فائدہ رہاکہ فضلاء میں ظاہر پرستی،سختی اور مسلکی بے جا تعصب پیدا نہیںہوتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ملا نظام الدین کا ’’مدرسہ فرنگی محل‘‘ لکھنؤ میں واقع تھا اورآبادی کی تناسب کی بنیاد پرشیعہ سنی جھگڑاسب سے زیادہ لکھنؤ میں پیدا ہوسکتا تھا لیکن ایسانہیں ہوا۔اس طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ مدرسہ فرنگی محل سے بڑے بڑے علماء پیداہوئے لیکن ان میں سے کسی نے مذہبی مناظرات کی کوئی کتاب نہیں لکھی   ۔

    ۷: نظام تعلیم سے تصوف کو نکالنا:
    درس نظامی سے پہلے ہندوستان کے دینی مدارس کے نصاب میں اسلامی تصوف نصاب کا لازمی حصہ ہوا کرتا تھا۔ ملا نطام الدین نے تصوف کو اپنے نصاب سے خارج کر دیا جو بر صغیرپاک و ہند کی اسلامی نظام تعلیم کی روایت کے منافی تھا ۔اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ شاید ملانظام الدین سہالوی تصوف کو کسی تدریسی عمل کے بجائے عملی تربیت سمجھتے تھے اور وہ ایک تعلیمی ادارے کو صرف نصابی(Academic)سرگرمیوں تک محدود رکھنا چاہتے تھے جب کہ تصوف ان کی نگاہ میں کوئی نصابی سرگرمی نہیں تھی۔یہاں یہ تاریخی نقطہ بھی سامنے رہے کہ ملا نظام الدین سہالوی کا اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ اچھے روابط تھے اور ملا نظام الدین کو مدرسے کے لئے انہوں نے ہی جگہ فراہم کی تھی۔عالمگیر کا تصوف کے ساتھ رویہ تاریخی اعتبار سے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں تھا چنانچہ اس نے نہ صرف عظیم بزرگ حضرت مجدد الف ثانی ؒشیخ احمد سرہندی[م:13نومبر1624ء]جن کو علامہ محمد اقبال[م:1938ء] مسلم ہندوستان کا سب سے بڑا Religious geniusقرار دیا تھا اور جس کو ہند و پاک کے مسلمان سکالرز دوسری ہزاریے (2ndMillennium) قرار دیتے ہیں ،کے تصوف پر مبنی خطوط’’مکتوبات امام ربانی‘‘ پڑھنے پر پابندی لگائی تھی بلکہ  ہندوستان کے صوفی عالم محب اﷲالہ آبادی[م:1648ء] کی تصوف کی کتاب ’’تسویہ‘‘ کو جلانے کا حکم دیا تھا  لہذا اس بات کے بھی قوی امکانات ہیں کہ ملا نظام الدین سہالوی نے اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ اپنے تعلقات کے پس منظر میں تصوف کو اپنے نصاب میں جگہ نہ دی ہو۔

    تحمل و رواداری ، تکثیریت(Pluralism) پر مبنی معاشرے میں بہتر انسانی روابط، کردار سازی اور اخلاقیات کے لئے درس و تدریس کے ساتھ اسلامی تصوف کی تعلیم نظامِ تعلیم کا ایک لازمی حصہ رہا تھا تاہم درس نظامی کے نصاب سے اسے خارج کردیا گیا جس کی بنا پرمذکورہ بالا اعلیٰ اخلاقی صفات کا حصول متاثر ہوا چنانچہ اسلامی تصوف کو درس نظامی سے خارج کرنے پرکڑی تنقید کی گئی ہے اور مدارس کے فضلاء کے کردار میں سختی اور عدم رواداری جیسے صفات پیدا ہونے کو اس کا نتیجہ قرار دیا گیاہے ۔

    ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم کے قیام پر ملا نظام الدین سہالوی کے مرتب کردہ نصاب ہی کو جزوی تبدیلیوں کے بعد دارالعلوم میں  بطور نصاب اپنایا گیا اور اگرچہ نصاب میں سلوک و احسان یا تزکیہ و تصوف کو بطور نصابی مضمون نہیں اختیار کیا گیا تا ہم دارالعلوم دیوبند کے فضلاء کے متعلق مولانا تقی عثمانی فرماتے ہیں:
    ’’... وہاں کے تمام طلبہ درسیات سے فراغت کے فوراً بعد کسی شیخ کامل سے اصلاح وتربیت کا تعلق قائم کرتے تھے۔ آج علماء دیوبند کی فہرست میں جن اصحاب کے اسماء گرامی اپنی علمی کارناموں کے لئے معروف اور ممتاز ہیں وہ سب کسی نہ کسی بزرگ سے اصلاحی تعلق رکھتے تھے۔ دار العلوم دیوبند کے عہد شباب میں کسی ایسے استاذ کا تصور تقریباً نا ممکن تھا جو کسی شیخ کامل سے وابستہ نہ ہو اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اساتذہ صرف علمی استعداد ہی نہیں بلکہ کردار وعمل اور جذبے سے سرشار، ان کے جذبات پاکیزہ، ان کے اخلاق جلا یافتہ او ران کے ذہن دنیا طلبی اور جاہ پرستی کے فتنوں سے پاک ہوتے تھے اور وہ صرف اللہ کی رضا جوئی کی خاطر درس وتدریس کی خدمات انجام دیتے تھے۔افسوس ہے کہ اب دینی مدارس اور ان کے فارغ التحصیل حضرات میں اپنی اصلاح وتربیت کے لئے کسی شیخ کامل سے رجوع کرنے کا ذوق ختم ہوجارہا ہے‘‘ ۔

    حقیقت یہ ہے کہ درس و تدریس کے ساتھ کردار سازی یا اخلاقیات نظامِ تعلیم کا ایک لازمی حصہ رہا تھا اور اس کے لئے تصوف و سلوک کی کتابیں رائج تھیں تاہم درس نظامی کے نصاب سے اسے خارج کردیا گیا۔ تصوف و اخلاق یا سلوک و احسان کی کتب کے سلسلے میں مولانا تقی عثمانی تجویز دیتے ہیں کہ امام غزالی ؒ کی ہدایۃ الہدایہ، اربعین،احیاء العلوم کے منتخب حصے، حضرت امام سہروردی کی عوارف المعارف، حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ کی التکشف  اور التشرق وغیرہ مختلف درجات میں رکھی جاسکتی ہیں ۔  عصر حاضر میں پھر سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ اسلامی تصوف کو دینی مدارس کے نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔

    ۸: درس نظامی کی تشکیل کا ملا نظام الدین کی طرف نسبت کا جائزہ :
    درس نظامی اگرچہ ملا نظام الدین سہالویؒ کی طرف منسوب ہے لیکن شائد یہ بات دلچسپی کی باعث ہو کہ درحقیقت اس کی تشکیل ایک پشت اوپر یعنی ان کے والد قطب الدین سے شروع ہوتی ہے اس لئے اس نصا ب کے مرتب وہی قرار پاسکتے ہیں۔ یہ بات ندوۃ العلماء کے رسالہ ’’ الندوہ‘‘ کے شمار ہ دسمبر ۱۹۱۰ء میں کہی گئی ہے اور پھر علامہ شبلی نعمانی کے مقالات میں ’’الندوہ‘‘ کے اس مضمون کو شامل کیا گیا ۔

    شبلی نعمانی کے علاوہ شاہ سلیمان سجادہ نشین پھلواری کا بھی یہ خیال ہے کہ درس نظامی کو کلّی طور پر ملا نظام الدین سہالویؒ کا مرتب کردہ نصاب کہنا درست نہیں کیونکہ ملا نظام الدین سہالویؒ کا تصوف سے بھی خصوصی تعلق تھا اور صوفی منشی انسان تھے( سید سلیمان شاہ نے ملا نظام الدین سہالوی کے لئے صوفی صافی غالی مشرب کے الفاظ استعمال کئے ہیں)، اگر وہ اس نصاب کو مرتب کرتے تو تصوف یا اخلاق کی کوئی کتاب اس میں ضرور داخل کرتے ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ملا نظام الدین سہالویؒ نے چالیس برس کی عمر میں شاہ عبدالرزاق بانسویؒ کے ہاتھ پر بیت کی اور پھر تصوف کا رنگ ان پر غالب آگیا تھا  ۔

    یہ کوئی بعید بات نہیں کہ درس نظامی کا خاکہ ملا نظام الدین کے والد بزرگوار نے بنایا ہو کیونکہ ملا نظام الدین سہالویؒ کے والد محترم خود جید عالم دین اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ لکھنو کے قصبہ سہالہ میں انہوں اپنا حلقہ درس قائم کیا تھا ان کے حلقہ درس نے نہایت وسعت حاصل کی اور ان کے شاگردوں میں کئی ایسے علماء پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے الگ الگ حلقہ درس قائم کئے اور ہندوستان کے دینی نظام تعلیم  پر وہ چھا گئے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں بھی یہ اظہار کیا گیا ہے کہ درس نظامی کا نصاب تنہا ملا نظام الدین سہالویؒ کا مرتب کردہ نہیں بلکہ اس کی اساس ان کے والدپہلے رکھ چکے تھے ۔   ملا نظام الدین کے والد کا حلقہ درس ان کے آبائی قصبے سہالہ میں تھا۔ ان کی شہادت کے بعد ملا نظام الدین سہالویؒ تاریخی مقام فرنگی محل منتقل ہوئے سہالہ کے مقابلہ میں فرنگی محل زیادہ مشہور تھااس لئے سہالہ کے حلقۂ درس پر فرنگی محل کی شہرت غالب آگئی اور یہ نصاب سہالہ حلقہ درس کے استادملاقطب الدین کے بجائے فرنگی محل کے حلقہ درس کے استاد ملانظام الدین کی طرف منسوب ہونے لگا۔اس طرح یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ درس نظامی کا خاکہ ایک پشت اوپر یعنی ملا نظام الدین کے والد نے بنایا ہو اس لئے اس نصاب کے حقیقی مرتّب کہلانے کے وہی مستحق ہیں۔

    درس نظامی کا تنقیدی جائزہ لینے کے عمل میں یہ بات افادیت سے خالی نہیں ہوگی کہ اس نصاب کى قبولیت کے اسباب کا بھی ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا جائے۔ہمیں درس نظامی کی قبولیت کے مندرجہ ذیل اسباب نظر آتے ہیں:

    ۱: ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں مغل  شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر[1658-1707ء] عالم و فاضل اور بہت زیادہ مذہبی اور متقی بادشاہ کے طور پر مشہور تھے۔  ان کے دور میں اسلامی روایات کو عروج حاصل ہوا۔ عالمگیر اور ملا نظام الدین سہالویؒ کے درمیان اچھے علمی روابط تھے چنانچہ ملکی معاملات کو اسلامی اصولوں پر چلانے کے لئے مشہورفقہی دستاویز’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کی تدوین کے لئے عالمگیر نے ملا نظام الدین سہالویؒ ہی کی سربراہی میں ہندوستان کے ممتاز علمائے دین کی ایک مجلس علمی قائم کی تھی اس کی سربراہی ملا نظام الدین کے حوالے کرنا پورے ہندوستان کے علماء میں ان کی سرکردہ حیثیت کا اعتراف تھا اور پھر ملا نظام الدین سہالویؒ نے اپنے مدرسے کا جس تاریخی محلہ ’’ فرنگی محل‘‘ سے آغاز کیا وہ بھی عالمگیر کا عطا کردہ تھا۔ اس طرح عالمگیر جیسے بادشاہ کی سرپرستی، ملانظام الدین سہالویؒ جیسی قدآور علمی شخصیت اورڈچ تاجر کی طرف منسوب فرنگی محل کی تاریخ حیثیت نے درس نظامی کی شہریت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ چونکہ اورنگ زیب عالمگیر کے جانے کے بعد بھی برصغیر میں ایک صدی سے زائد عرصے تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہی اس لئے چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کے باوجود بھی ملا نظام الدین سہالویؒ کا مرتب کردہ نصاب تعلیم جاری رہا۔

    ۲: مابعد ادوار کے معروضی حالات کی وجہ سے بھی ملا نظام الدین سہالویؒ کے نصاب کو شہرت و قبولیت عامہ نصیب ہوئی چنانچہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تین صوبوں (بنگال، بہاراور اڑیسہ) پر قبضہ کرلیا اور مسلمانوں کے معاملات کو شریعت اسلامی کے مطابق طے کرنے کے لئے مسلمان قاضی اور مفتیانِ کرام کی ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے درس نظامی کے فضلاء کی علمی مہارت اور عوام میں ان کی قبولیت و پذیرائی کا مشاہدہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اسی درسِ نظامی کے فارغ التحصیل حضرات کو قاضی و مفتی مقرر کیا جائے چنانچہ بڑے پیمانے پرملا نظام الدین سہالوی کے تعلیم گاہ’’مدرسہ فرنگی محل‘‘ کے فضلاء کی مانگ ہونے لگی اس پس منظر میں بڑے پیمانے پر ہندوستانی مدارس میں اس نصاب کو اپنایا گیا ۔

    ۳:   جب۱۸۵۷ء کی جنگ کے بعد ۱۸۶۶ء میںجب دارالعلوم دیوبند قائم ہوا تو قدرے تبدیلی کے بعد درس نظامی کے نصاب ہی کو لیا گیااسی طرح دیگر مدارس بھی جو قائم ہوتے رہے تو انہوں نے درس نظامی کا نصاب ہی اپنایا کیونکہ ان کے سامنے اسی نصاب کا نمونہ موجود تھا ۔

    ۴:قیام پاکستان کے بعد علماء نے دینی مدارس قائم کئے تو چونکہ انہوں نے اسی نظام کے تحت تعلیم حاصل کی تھی اس لئے انہوں نے اپنے مدارس میں اسی نصاب کو رائج کیا۔

    ۵: چونکہ اس نصاب میں دیوبندی،بریلوی،یا شیعہ سنی کسی قسم کی فرقہ وارانہ نصابی مواد نہیں تھا اس لئے اصولی طور پر اس نصاب کو تمام فرقوں نے اپنے ہاں رائج کیا اس سے بھی اس نصاب کو قبولیت اور ایک مذہبی تقدس ملا۔

    ۶: مذہبی طبقے میں اپنے اسلاف سے انتہائی عقیدت کا جذبہ پایا جاتا ہے اور پھرطبقہ علماء عام طور پر جدیدیت کے مقابلے میں قدامت پرست واقع ہوا ہے۔چونکہ یہ نصاب ان کے قدیم اسلاف کا تیار کردہ ہے اور ان کے اساتذہ نے اسی نصاب کو پڑھا اور پڑھایا ہے اس طرح درس نظامی کی قبولیت و بقاء کا ایک بڑا راز علماء میں قدامت پرستی، اسلاف سے تقدس اورعقیدت مندانہ روش بھی ہے  ۔
    خلاصہ و تجاویز:
    پاکستان کے دینی مدارس میں بنیادی طور پر ملا نظام الدین سہالوی [متوفی :1748ء] کا نصابی ماڈل نافذہے جس میں بیشتر کتابیں چھ سو اور سات سو سال پہلے لکھی گئی ہیں ۔ یہ نصابی مواد صدیوں پہلے اس و قت کے مزاج کے مطابق تحریر کیا گیا تھا جب درسی کتب کی تصنیف میں مشکل اورپیچیدہ (Complicated) انداز بیان قابلیت کی نشانی تھی جن کے سمجھنے میں طلبہ کا غیر ضروری طور پر کافی وقت صرف ہو جاتا اور پھر بجائے فن سیکھنے کے اس کتاب(text)ہی کو سمجھ پانا کمال سمجھا جاتا تھا۔یہ بیشتر کتابیں استقرائی انداز بیان کی ہیںجن کی وجہ سے طلبہ میں مطلوبہ فن شناسی اور استخراجی ذوق نہیں پیدا ہوتا ۔

    نیز اسلامی نصاب تعلیم کا مزاج وحدت کا تصور پیش کرتا ہے۔ و ہ دین و دنیا اور مادہ و روح کے تناقض کو دور کرتا ہے یعنی نصاب بیک وقت دینی بھی ہوتا ہے اور دنیاوی بھی ، تاکہ انسان دنیا کو دین کے حوالے سے سمجھے اور دین کی تطبیق اسی متحرک اور تیز رفتاردنیا میں کرسکے۔اسلامی نصاب تعلیم کی اہم نفسیاتی بنیاد (Psychological Base) یہ ہے کہ ساری دنیا دین کا موضوع ہے اور دین در حقیقت انسان کی بنیادی فطرت ہے ۔ اسلام کا پورا فلسفہ نصاب اسی نکتہ میں پوشیدہ ہے۔یہ نہ ترک دنیا کی تعلیم دیتا ہے اور نہ غلو فی الدنیا کی ۔چنانچہ متوازن اسلامی نصاب کی تشکیل کا مقصد اعلیٰ ایسے متوازن اور صحت مند افراد کی تیاری ہے جو ہر دور اور ہر شعبہ زندگی میں صراط مستقیم یا دین فطرت کے مطابق چلنے اور دوسروں کی رہنمائی کے قابل ہوں نیز وہ ثبات و تغیر کے درمیان کامل توازن قائم کرے یعنی وہ نصاب دین کے ابدی اقدار کا بھی لحاظ رکھے اور انسانی معاشرے کی بدلتی ہوئی جائز ضرورتوں کو بھی پورا کرے۔ان اصولی باتوں کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ:
    الف:  قرین مصلحت ہے کہ صدیوں قدیم کتابوں کو نصاب سے نکال دیا جائے اور ان کے بجائے استخراجی بنیادوں پر لکھی گئی جدید اور عام فہم کتابوں کو Recommendکیا جائے۔
    ب: دینی تعلیم کی تمام سطحوں پر نصاب میں عصر حاضر کے مناسب حال مضامین شامل ہوںاور معاصر موضوعات و مسائل زیر بحث آنے چاہئیں تاکہ طلبہ ان مسائل و مباحث کو اسلامی تعلیمات کے مطابق حل کرنے کے قابل ہوں۔

    حوالہ جات وحواشى
       سلطان محمود غزنوی کے زیر اثر تشکیل پانے والے نصاب کے لئے ملاحظہ ہو : ابوالحسنات  ندوی ، ہندوستان کی قدیم اسلامی درس گاہیں، امرتسر، ۱۹۲۲ ص:۹۴۔۹    مناظراحسن گیلانی ،ہندوستان میں مسلمانوںکانظام تعلیم وتربیت،دہلی،۱۹۴۴،جلد اول ،ص ۳۱۷
        ایضاََ، جلد اول،ص:۱۶۶
        ایضاََ، جلد اول،ص:۱۶۸
       ابوالحسنات ندوی ، ہندوستان کی قدیم اسلامی درس گاہیں، امرتسر، ۱۹۲۲ ص:۹۵
        ملا نظام الدین سہالویؒ کے حالات زندگی اور خاندانی پس منظر کے لئے  ملاحظہ ہوں: اردو دائرہ معارف اسلامیہ : جامعہ پنجاب لاہور، طبع دوم، ۲۰۰۲، جلد نمبر۲۲، ص ۳۳۵ تا ۳۵۹ ؛مأثرالکرام: غلام علی آزاد، آگرہ، ۱۹۱۰، جلد نمبر اول، ص ۲۲۰ تا ۲۲۴؛ سبحتہ المرجان : غلام علی آزاد، آگرہ، ص ۹۴؛  مقالات شبلی: شبلی نعمانی، اعظم گڑھ، ۱۹۳۲ء، جلد۳، ص۹۱ تا ۱۲۵؛  نزھتہ الخواطر: حکیم عبدالحئی، حیدر آباد (دکن)، ۱۹۵۷ء، جلد۶، ص ۲۳۰ و ما بعد، و ص ۳۸۳ تا ۳۸۵؛تذکرہ علمائے ہند: رحمان علی، ایوب قادری کراچی، ۱۹۶۱ء، ص ۳۹۰ و مابعد؛ رودکوثر: شیخ محمد اکرام، لاہور، ۱۹۷۵ء، ص ۶۰۳ تا ۶۰۸؛ احوال علمائے فرنگی محل: شیخ الطاف الرحمن، لکھنو، ص ۹ و مابعد و ص ۷۷
       فرنگی محل ہندوستان کے مشہور شہر لکھنو میں ایک رہائشی علاقے کا نام تھا جو مغل بادشاہ جہانگیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ایک معاہدہ کے تحت دیا تھا، جہانگیر اس زمانے میں کسی بیماری میں مبتلا ہوا تو کئی مقامی طبیبوں نے اس کا علاج کیا لیکن صحت یاب نہ ہوا ۔ایک انگریز ڈاکٹر کے علاج سے شفایاب ہوئے۔ اس پر جہانگیر نے خوش ہو کر پوچھا کہ کیا چاہیے؟ ڈاکٹرنے کہا کہ میری قوم کے کچھ لوگ یہاں لکھنو میں تجارت کے لئے آئے ہیں  ان کو بعض اوقات مشکلات پیش آتی ہیں اس لئے آپ ان کو تجارت کی آزادانہ اجازت دے دیں اور رہائش اور تجارتی امور میں مناسب مراعات بھی جاری فرما دیں۔ اس پر جہانگیر نے شاہی فرمان جاری کیا اور لکھنو کے محلہ ’’ احاطہ چراغ بیگ ‘‘ میں ایک بڑا محل یا کوٹھی ان کو دے دی، انگریزوں کوغیر منقسم ہندوستان میں فرنگی بھی کہا جاتاتھا، اس لئے انگریزوں کی وجہ سے وہ کوٹھی ’’ فرنگی محل‘‘ کہلاتی تھی اور پھر آگے چل کر فرنگی محل کی وجہ سے وہ پورا محلہ فرنگی محل کے نام سے مشہور ہوا۔ ایک عرصے کے بعد اورنگ زیب بادشاہ [۱۶۵۸۔۱۷۰۷ء] کے دور میں ان کو اطلاع ملی کہ انگریزوں کی طرف سے شاہی فرمان میں دی گئی ان شرائطوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے جو جہانگیر نے اپنے دور میں طے کیں تھیں اس پر اورنگ زیب نے وہ کوٹھی ضبط کر لی اور بعدازاں اسی فرنگی محل کا ایک حصہ ملا نظام الدین سہالویؒ کورہائش کے لئے دیا،اور ایک حصے میں اورنگ زیب کے مشورے پر انہوں نے اپنا حلقہ درس قائم کیا جو تاریخ میں مدرسہ فرنگی محل کے نام سے مشہور ہوا۔ اس درس گاہ کے فارغ التحصیل علماء تاریخ میں علمائے فرنگی محل کہلائے۔ ملاحظہ ہو: مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم: خطبات وتقاریر: ڈاکٹر محمود احمد غازی مرتب ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ ۲۰۰۹ء، ص ۲۱۰۔ ۲۰۹
       درس نظامی کے مضامین اور ان کے مقررہ کتب کے لئے ملاحظہ ہوں:اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد۲۲، ص ۳۳۵ تا۳۵۹ ؛شیخ محمد اکرام،رود کوثر،ادارہ ثقافت اسلامیہ ، لاہور، ۱۹۸۸، ص:۶۰۵؛ پروفیسربختیار حسین صدیقی،برصغیر پاک و ہند کے قدیم عربی مدارس کا نظام تعلیم،ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور ، ۲۰۰۹،ص:۲۰؛ شبلی نعمانی،مقالات شبلی،جلد۳، ص:۱۲۴؛ تذکرہ مصنفین درس نظامی:پروفیسر اختر راہی،مکتبہ رحمانیہ لاہور، ۱۹۸۷ء، ص۱۸
       مقالات شبلی،جلد۳، ص:۱۲۴؛ برصغیرپاک وہندکے قدیم عربی مدارس کانظام تعلیم، ص:۲۴؛ ڈاکٹر محمود احمدغازی،مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم،الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ،۲۰۰۹، ص: ۴۸
       اس کتاب کے تفصیلی تعارف کے لئے ملاحظہ ہو : مولانا محمد حنیف گنگوہی، ظفر المحصلین باحوال المصنفین، دارالاشاعت کراچی ،۲۰۰۰ء، ص:۲۵۸،۲۸۴
       ظفر المحصلین ،ص: ۲۵۹
       مقالات شبلی،جلد۳، ص:۱۲۴؛ برصغیرپاک وہندکے قدیم عربی مدارس کانظام تعلیم، ص:۲۴؛ مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم،الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ،۲۰۰۹، ص: ۴۸
       برصغیرپاک وہندکے قدیم عربی مدارس کانظام تعلیم، ص:۲۲
        ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت،جلد۱،ص:۲۴۰
        مقالات شبلی،جلد۳،ص:۱۰۰
        برصغیرپاک وہندکے قدیم عربی مدارس کانظام تعلیم، ص:۲۱۔رود کوثر، ص ۶۰۶
        ڈاکٹر محمود احمدغازی،امسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم،الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ،۲۰۰۹، ص: ۱۹
        مآثر الکرام،ص:۸۴۔۸۹ بحوالہ ڈاکٹر محمد امین،ہمارا دینی نظام تعلیم ، دارالاخلاص،لاہور،۲۰۰۴،ص:۲۱۷. محب الہ آبادی (۱۰۵۸ھ ۔ ۱۶۴۸ء) نامور بزرگ صوفی حضرت فرید شکر گنج کی اولاد میں سے تھے جن کا سلسلہ نسب خلیفہ دوم حضرت عمرؓ سے ملتا ہے۔ محب اﷲ عالم بھی تھے اور صوفی بھی۔انہون نے ابن العربی کے نظریات کی اس قدر تشہیر کی کہ ان کو ابن عربی ہند کا خطاب دیا گیا۔انہوں نے اپنی کئی تصانیف چھوڑی ہیں۔انہوں نے قرآن حکیم کی تفسیر بنام المراتب الاربعہ لکھی۔تصوف وہ نظریہ وحدت الوجود کے قائل اور پر زور وکیل تھے اور اسی نظریے کے تحت انہوں نے تصوف میں ’’التسویۃبین الافادۃ والقبول‘‘نامی کتاب لکھی جس کی بعد ازاں کئی شروحات لکھی گئیں(ڈاکٹر زبیداحمد ، عربی ادبیات میں پاک و ہند کا حصہ،ادارہ ثقافت اسلامیہ،لاہور،۱۹۸۷،ص:۴۷،۱۰۷۔
        رود کوثر،ص:۶۰۶
        ماہ نامہ ’’ البلاغ‘‘ شمارہ شوال ۱۴۰۳ھ ج۱۷ ص ۵۷۹ بحوالہ ہمارا تعلیمی نظام ، محمد تقی عثمانی ، مکتبہ دار العلوم کراچی نمبر  ۱۴، ۲۰۰۲ء ص ۱۲۶
        ماہنامہ مدالبلاغ، جمادی الاخریٰ،  ۱۴۰۴ھ، جلد نمبر۱۸، ص۳۲۳ بحوالہ ہمارا تعلیمی نظام: محمد تقی عثمانی، مکتبہ دارالعلوم کراچی نمبر۱۴، ۲۰۰۲، ص۹۹
        محمد تقی عثمانی،ہمارا تعلیمی نظام، مکتبہ دارالعلوم کراچی ، ۲۰۰۲، ص:۹۹
       مقالات شبلی جلد سوم ، ص ۱۰۵
        رود کوثر، ص ۶۰۶
        الندوہ، جلد نمبر۱۲، دسمبر۱۹۱۰ء، بحوالہ مقالات شبلی، جلد نمبر۳، ص ۱۱۵۔
        مقالات شبلی، جلد۳، ص ۱۰۸
        اردو دائرہ معارف اسلامیہ جامعہ پنجاب، لاہور طبع دوم ،۲۰۰۲ء، جلد نمبر ۲۲، ص ۳۳۵۔۳۵۹، زیر عنوان مقالہ  نظام الدین سہالویؒ از محمود الحسن عارف
        مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم،ص: ۶۱
       رود کوثر، ص ۶۰۶
    www.sadaemuslim.com

    تحقیق: یونیورسٹی  آف پشاور

    پیشکش: صدائے مسلم بلاگ

    پشاور اسلامیکس جلد نمبر 2 شمارہ نمبر 2





    شاركه على جوجل بلس

    عن Unknown

      تعليقات بلوجر
      تعليقات فيسبوك

    0 comments:

    Post a Comment