اسلامی بینک کاری کی پیچیدگیاں۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: نسیم شیخ
موجودہ صورتحال میں جہاں انسان ترقی کے مراحل طے کر رہا ہے وہیں اسے بے پناہ مسائل کا سامنابھی ہے اسلامی اقدار کی روشنی میں اپنے مسائل کے حل کے لئے ان راستوں کا انتخاب کرنا انتہائی اہم ہے جن پر چلنے سے ہم اپنے مسائل کا حل تو نکال سکتے ہیں مگر اسلامی لحاظ سے ہم ایسے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں جنہیں اسلام میں درست نہیں سمجھا جاتایاانہیں اسلام نے حرا م قرار دیا ہے جیسے سود کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے ۔اس روشنی میں آج کے دور میں اگر بینکنگ کو دیکھا جائے تو بے شمار سوالات سر اٹھاتے دکھائی دیں گے انمیں سب سے پہلے جو سوال سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا بینک کا نظام اور طریقہ کاروبار اسلام میں جائزہے بھی یا نہیں علماٌ اکرام نے اس سلسلے میں فتوے بھی جاری کئے اور یہ بات شفاف آئینے کی صورت سامنے آگئی جس روشنی میں یہ کہنا درست ہے کہ موجودہ بینکنگ یہودی سرمایہ دارانہ نظام کے گرد گھومتی ہے اور اس بینکنگ میں پیسے کے لین دین رقوم کی منتقلی میں سود ایک لازم جز ہے۔اس لئے مسلمان علماء اکرام نے اس

مگر اس وقت اہم بات یہ ہے کہ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ بینک کا بنیادی تصور کیا ہے اور اس کا اسلام میں کیا تصور ہے۔
لیکن ایسے ادارے کو اسلامی ادارہ یا اسلامی بینک کہنے کے لئے چند بنیادی اسلامی خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے چنانچہ محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ سے لے کر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی تک ہمارے اکابر نے اسلامک بینکنگ کا جو تصور پیش کیا ہے اس کے مطالعہ سے اسلامی بینک میں مندرجہ ذیل خصوصیات کا پایا جانا انتہائی ضروری ہے۔
اسلامی بینک کی پہلی خصوصیت بلکہ پہچان اور علامت یہ ہے کہ وہ شرکت و مضاربت کے شرعی اصولوں پر سرمایہ کاری کرے اور مالی استحکام ہو تو قرضِ حسنہ کے ذریعے لوگوں سے معاملات کرے اس کے علاوہ کوئی اور تمویلی طریقہ اسلامی بینک کی مستقل بنیادوں میں شریعت کی رو سے قابل قبول نہیں ہے۔
اسلامی بینکاری شرعی تجارتی اصولوں پر مکمل پابندی کرے اور ایسے طریقوں پر سرمایہ کاری کرے جو دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پر متنج نہ ہوں جہاں امیر سے امیر تر بننے اور غریب سے غریب ٹھہرانے کے جذبات و تعلقات کارفرما نہ ہوں یعنی اسلامی بینک کے سامنے یہ روکاوٹ ہونا ضروری ہے کہ دولت کے دولت مندوں کے درمیان الٹ پھیر نہ ہو۔
اسلامی بینک ایسے افکار و طریقے ہائے پر سرمایہ کاری نہ کرے جس سے معاشرے میں مہلک استحصالی جراثیم کا اضافہ ہوتا رہے یعنی (دوسروں کا مال ناحق ہتھیانے) کا فکر و عمل اسلامی بینکاری کے قریب نہیں بھٹکنا چاہیے۔
اسلامی بینکاری میں ایسے حیلوں کو ہر گز راستہ نہیں ملنا چاہیے جن حیلوں سے مقاصد شریعت فوت ہوتے ہوں اور ان حیلوں کو سود کی روح باقی رکھنے کا ایک قانونی حیلہ بنایا جائے اور بینکاری نظام کی پوری عمارت ان حیلوں کو سود کی روح باقی رکھنے کا ایک قانونی حیلہ بنایا جائے اور بینکاری نظام کی پوری عمارت ان حیلوں پر کھڑی کر دی جائے اور اربوں کی سرمایہ کاری کے لئے حیلوں کو مدار بنایا جائے یہ قطعاَ جائز نہیں ہے۔
اسلامی بینکاری کے نظام کو ایسی بنیادوں پر ہرگز نہ چلایا جائے جن سے اسلامی نظام سرمایہ کاری کا ناقص اور ادھورا تصور دنیا کے سامنے پیش ہو۔ پس جو نام نہاد اسلامی بینک اس خصوصیت سے عاری ہوگا وہ قطعاً غیر اسلامی ہوگا۔اب چونکہ باہر کی دنیا میں غیر اسلامی نظام رائج ہے جس کی بنیاد سود پر ہے اور بغیر بینک کے کوئی نظام آج کل چل نہیں سکتا تو ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ایسا نظام تجارت سوچیں اور ایسا بینک قائم کریں جو بغیر سود کے چل سکے چاہے وہ مضاربت کے اصول پر ہو یا شرکت کے قانون پر ہو نہ یہ کہ ہم یہ اندازِ فکر اختیار کریں کہ بینکنگ کے سود کو جائز ٹھہرائیں کہ وہ سود نہیں جس کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے میں سمجھتا ہوں کی بینک کا سود ہی سب سے بڑی لعنت ہے جس پر سرمایہ داری کی ساری عمارت قائم ہے۔اور یہی لعنت ہے جو اپنے رد عمل کے طور پر اشتمالیت و اشتراکیت کا سبب بن رہی ہے۔جب ہم غیر سودی بینکاری کا نام لیتے ہیں اور بینکنگ کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلانے کی بات کرتے ہیں تو اس کا منشاء یہ نہیں ہوتا کہ چند حیلوں کے ذریعے ہم موجودہ طریق کار کوذرا سا تبدیل کرکے سارا نظام جوں کا جوں برقرار رکھیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ سرمایہ داری کے پورے نظام کو تبدیل کرکے اسے اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالیں۔جس کے اثرات تقسیم دولت کے نظام پر بھی مرتب ہوں اور سرمایہ کاری کا اسلامی تصور یہ ہے کہ جو شخص کسی کاروبار کو سرمایہ فراہم کر رہا ہے وہ یا تو نفع کا مطالبہ نہ کرے یا اگر نفع کا مطالبہ کرتا ہے تو نقصان کے خطرے میں بھی شریک ہو لہذا غیر سودی بینکاری میں بنیادی طور پر اس تصور کا تحفظ ضروری ہے۔اب اگر بینک کا سارا نظام مارک اپ(جسے اسلامی بینکاری میں ربح اور اجرت رکھ دیا گیا ہے)کی بنیاد پر استوار کرلیا جائے تو سرمایہ کاری کا بنیادی اسلامی تصور آخر کہاں اطلاق پذیر ہوگا کیا اس حیلے کے ذریعے نظام تقسیم دولت کی مروجہ خرابیوں کا کوئی ہزارواں حصہ بھی کم ہو سکے گا اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو خدارا سوچئے کہ مارک اپ مروجہ نام نہاد ربح و کرایہ مرتب کا حیلہ استعمال کرکے ہم اسلامی نظام سرمایہ کاری کا کیا تصور دنیا کے سامنے

بعض نا گزیر حالات اور عبوری دور کے لئے شرکت و مضاربت کے متبادل کے طور پر بیع مؤجل کے جو حیلے بتائے گئے ہیں ان کو معمول بنا لینا اور اسلامی بینکاری کی بنیاد تصور کر لینا نا جائز تھا کیونکہ ایسے حیلے محض اکا دکا موقعوں پر استعمال کئے جا سکتے ہیں ان حیلوں پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی عمارت کھڑی کر دینا کسی طور پر بھی جائز نہیں ہو سکتا۔
مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ عملی طور پر جو نظام چل رہا ہے اس نظام میں ان حیلوں کو بھی مطلوبہ شرائط اور شرعی معیارات کے مطابق استعمال نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ طریقہ کار سود کو قانونی حیلے کے ذریعے از سر نو رواج دینے کا طریقہ ہے۔چنانچہ جمہور علماء کرام نے غور کیا تو یہ تینوں بنیادی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے مولانا محمد تقی عثمانی اور دیگر اہل علم نے پی ایل ایس اسکیم کو ناجائز اور خلاف شرح قرار دیا یہی خرابیاں بدرجہ اتم مروجہ اسلامی بینکاری میں بھی موجود ہیں۔بلکہ اس سے بڑھ کر خرابیاں پائی جا رہی ہیں کیونکہ اس اسکیم میں سود کو چور دروازے سے داخل کرنے کے خلاف شرح حیلوں کے استعمال کی خرابی لازم آرہی ہے جبکہ مروجہ اسلامی بینکاری میں سودی حیلوں پر خود مولانا کی تحریروں میں از خود اشکال در اشکال وارد کرکے ان کے جوابات اور تاویلات کا اچھا خاصہ سلسلہ موجود ہے۔مثال کے طور پر روایتی بینکوں کی شرح سود کو مروجہ اسلامی بینکوں کے نفع کے لئے معیار بنانا شرعی اصولوں کے مطابق درست نہیں ہے۔اس سلسلے میں حضرت نے خود بھی اس معیار کو سودی معاملات کے ساتھ مشاہبت کی وجہ سے کہیں نا جائز اور کہیں نا مناسب کہا ہے اور نا جائز ہونے کا ایک سبب بھی بیان فرمایا کہ اس صورت میں نفع تخمینی اور تقریبی ہوگا حقیقی مشکل اور یہ مشارکہ و مضاربہ کے اصولوں کے خلاف بھی ہے اور پھر اس کی تاویل کرتے ہوئے بعض حضرات کی طرف سے متبادل تجویز پیش فرمائی اور اس کو شریعت سے ہم آہنگ قرار دیا گیا۔اس سلسلے میں سب سے اہم بات جو سامنے آتی ہے وہ مکاتب فکر اور اہل علم حضرات کا ایک نقتہ پر متفق نہ ہونا بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے جس کا برائے راست تعلق بینکنگ کے معاملات کو گھمبیر کرنے اور ایک عام شخص کے ذہن میں وسوسوں کی برسات کے مترادف ہے۔ہم اگر اس سلسلے میں مختلف مکاتب فکر کے بیانات اور تجزیوں کا جائزہ لیں گے تو ہمیں علم ہوگا کہ آپس کا تضاد اسلامی بینکنگ کے قیام میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔اس لئے اسلامی بینکنگ کے قیام کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ علماء کرام اور اہل علم حضرات کا ایک میز پر یکجاء بیٹھ کر مشاورت سے ایسا متبادل نظام لانا جس میں اسلامی طریقہ کار شریعت کے مطابق ہو اور جس کے رائج ہونے سے اسلامی سارفین بینکنگ سے مستفید ہو سکیں اور ان سودی بینکوں کے قائم جال سے آزاد ہو کر ایک اسلامی فضاء میں دنیا بھر سے اپنے کاروباری تعلقات قائم کر سکیں۔ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے اسلامی بینکنک کے قیام کے لئے جو کوششیں اور ریسرچ کی وہ قابل قدر ضرور ہے مگر اس پر علماء اکرام کی عدم اعتمادی اسلامی بینکنگ کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔حضرت صاحب نے کئی بار فرمایا کہ بعض جدید بینکاروں نے اس سودی مشاہبت کو عدم جواز کی موسلا دھار بارش سے بچانے کے لئے حقیقت پسندانہ جائزہ کی چھتری بھی تان رکھی ہے چنانچہ ان بینکاروں کی مستقل مصروفیت یہی بنی ہوئی ہے کہ ان حیلوں اور اس نظام پر جو جو اشکال ہوتا رہے اس کی تاویل کی جائے۔چنانچہ مولانا کی اس موضوع کی کتابوں سے لے کر جدید اسلامی بینکاروں کے حقیقت پسندانہ جائزوں تک اگر ہم مطالعہ کریں تو سود کے چور دروازوں کے جواز کی کئی تاویلات ملیں گی جس سے جمہور اہل علم کو

نوٹ۔ مذکورہ تحریر، تحریر نگار کی ذاتی رائے ہے۔۔۔اس سے بلاگ ایڈیٹر کا متفق ہونا لازمی نہیں۔
کیا پاکستان میں کوئی ایسا بینک ہے جو اسلامی تقاضے پورے کر رہا ہو، مثلا میزان بینک یا بینک اسلامی وغیرہ
ReplyDelete