جديدنا

اسلامی بینک کاری کی پیچیدگیاں



    اسلامی بینک کاری کی پیچیدگیاں۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: نسیم شیخ
     موجودہ صورتحال میں جہاں انسان ترقی کے مراحل طے کر رہا ہے وہیں اسے بے پناہ مسائل کا سامنابھی ہے اسلامی اقدار کی روشنی میں اپنے مسائل کے حل کے لئے ان راستوں کا انتخاب کرنا انتہائی اہم ہے جن پر چلنے سے ہم اپنے مسائل کا حل تو نکال سکتے ہیں مگر اسلامی لحاظ سے ہم ایسے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں جنہیں اسلام میں درست نہیں سمجھا جاتایاانہیں اسلام نے حرا م قرار دیا ہے جیسے سود کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے ۔اس روشنی میں آج کے دور میں اگر بینکنگ کو دیکھا جائے تو بے شمار سوالات سر اٹھاتے دکھائی دیں گے ان

    میں سب سے پہلے جو سوال سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا بینک کا نظام اور طریقہ کاروبار اسلام میں جائزہے بھی یا نہیں علماٌ اکرام نے اس سلسلے میں فتوے بھی جاری کئے اور یہ بات شفاف آئینے کی صورت سامنے آگئی جس روشنی میں یہ کہنا درست ہے کہ موجودہ بینکنگ یہودی سرمایہ دارانہ نظام کے گرد گھومتی ہے اور اس بینکنگ میں پیسے کے لین دین رقوم کی منتقلی میں سود ایک لازم جز ہے۔اس لئے مسلمان علماء اکرام نے اس قسم کی بینکنگ کا متبادل تلاش کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں شروع کر دیں اور ان کوششوں کا نتیجہ اسلامی بینکنگ کی صورت میں سامنے آیا گو کہ اسلامی بینکنگ میں بھی بہت سے چیزیں متنازع ہیں جن کا زکر میں نے اپنی بحث اسلامی بینکنگ اور سودی بینکاری میں تفصیل سے کیا ہے۔آج مجھے اس چیز کی شدت سے کمی محسوس ہوئی تو میں نے ضروری سمجھا کہ اسلامی بینکنگ پر ایک تفصیلی تحریر لکھی جائے جس کی روشنی میں اسلامی بینکنگ اور اس کے فوائد اور پہلوؤں پر ایک نگاہ ڈالی جا سکے تاکہ عوام الناس اسلامی بینکنگ سے واقف ہو سکیں۔ماڈرن بینکنگ سسٹم اسلامی ممالک میں اس وقت متعارف کرایا گیا جب اسلامی ممالک سیاسی اور اقتصادی طور پر تنزلی کا شکار تھا یہ انیسوی صدی کے اختتامی ایام کی بات ہے اس دوران مختلف بینک تمام شہروں میں اپنی برانچیں قائم کرتے ہوئے اپنی تجارت کر رہے تھے اور غیر ملکی کاروبار اور بیرون ملک رقوم کی لین دین کے لئے انتہائی محفوظ اور مستندذریعہ بن کر عوام کی ایک اہم ضرورت کی شکل میں سامنے آچکے تھے اس کے ساتھ ساتھ یہ بینک ایک عجیب مشکل کا شکار تھے کیونکہ ان کے بینکنگ سسٹم کو عوام صحیح طور پر نہیں سمجھتی تھی اور نہ ہی انہیں اس سے کوئی سروکار تھا وہ اپنے بیرونی تجارتی تعلقات سے کاروباری امور قائم رکھنے کے لئے ان بینکوں کے سہارے پر مجبور تھے۔مگر پھر بھی کچھ لوگ ان بیرون ملک بینکوں سے مطمعن نہیں تھے ان کی وجہ قومیت ہو یا اسلامی مذہبی پیچیدگیاں جن کی وجہ سے مسلمان دینی طبقہ اس قسم کی بینکنگ سے دور رہتا تھا اس بات کو دیکھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ سسٹم کو متعارف کرایا گیا۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی سود کی آمیزش کو محسوس کیا گیا جس کی تصویر میری نظر میں یہ ہے کہ جیسے ایک گلاس دودھ میں ایک قطرہ شراب ملا دی جائے تو دودھ حرام ہو جاتا ہے اور اگر ایک قطرہ شراب میں سیروں دودھ بھی ملا دیا جائے وہ حرام ہی رہے گا۔بالکل اسی طرح ان سودی بینکوں کے نظام میں سود کی آمیزش اسے مسلمان کے لئے حرام قرار دیتی ہے۔ان تمام محرکات کو دیکھنے کے بعد اس نظام کے متبادل نظام کی تلاش شروع ہوئی اور اسلامی بینکنگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سودسے پاک بینکنگ کی تاریخ بھی دو حصوں میں تقسیم ہے ایک خیال یعنی آئیڈیا اور دوسرا حقیقت یعنی ریلٹی

    مگر اس وقت اہم بات یہ ہے کہ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ بینک کا بنیادی تصور کیا ہے اور اس کا اسلام میں کیا تصور ہے۔

    بینک ابتدائی طور پر نقود کے لین دین کا ادارہ ہے جہاں محنت و عمل کے واسطہ کے بغیر زر کے ذریعہ زر کی پیدائش کاتصور کار فرما ہے جو مغربی سرمایہ داری نظام یعنی Capitalismکی ایجاد ہے اس ادارہ میں سرمایہ کا ایسا ارتکاز ہوتا ہے جہاں نقصان و خسارے کا گزر نہ ہوسکتا ہو یہ ادارہ سرمایہ میں زیداتی ہوتی رہے اور سرمایہ دار اس سے مستفید ہوتے رہیں اس گردش سرمایہ کا محور چونکہ محض سرمایہ داری ہوتی ہے اور سرمایہ دار اس سے مستفید ہوتے رہیں ا س گردش سرمایہ کا محور چونکہ محض سرمایہ دار ہی ہوتے ہیں اس لئے سرمایہ صرف چند سرمایہ داروں کے درمیان چکر کاٹتا رہتا ہے عام معاشرہ اس سرمایہ کی گردش سے باہر ہوتا ہے۔جس کا انجام عام معاشرہ کے استحصال کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے بینک اپنے اس بنیادی تصور کے اعتبار سے سود اکل با لباطل یعنی (دوسروں کا مال ناحق ہتھیانے) اور ( دولت بین الاغیاء) دولت مندوں کے درمیان الٹ پھیر کی واضح ترین شکل ہے اس لئے بینک کے بنیادی تصور کے غلط ہونے میں شریعت کی رو سے کسی قسم کی خفاء نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجود اس بینکاری نظام کے تانے بانے شاطر ذہنیت نے ایسی عیاری و مکاری سے بنے ہیں کہ یہ نظام سرمایہ داری نظام کے ضمن میں پوری دنیا کے اندر جال بن کر پھیل گیا ہے اور ہر ملک کے لئے ایک ریاستی مجبوری بن چکا ہے چنانچہ کوئی بھی حکومت ہو وہ بینکاری کے مغربی تصور کے مطابق اہل مغرب کے بنائے ہوئے سانچوں اور قوالب میں مرکزی اور قومی بینک بنانے کے لئے مجبور بنی ہوئی ہے بینکاری کو دنیا کی مجبوری بنانے کے لئے مذید یہ حربہ اختیار کیا گیا کہ بینک صرف نقدی کے لین دین میں واسطہ کی حد تک محدود نہیں ہوگا بلکہ تمویل تخلیق زر اور درامدات و برامدات میں بھی لازمی واسطہ بنے گا چنانچہ بینک کے واسطے کے بغیر درامدات و برامدات کا سلسلہ صحیح طور پر قائم نہیں رہ سکتا۔اگر کوئی حکومت یا کمپنی بیرون ملک سے کچھ منگوانا چاہے یا اپنی اشیاء باہربھیجنا چاہے تو اسے بینک کو ہی واسطہ بنانا پڑے گا۔ الغرض بینکاری نظام کو دنیائے انسانیت کے حق میں ایسی ریاستی مجبوری بنا دیا گیا ہے جس سے دنیا کا چھٹکارا کافی حد تک مشکل ہے پھر اس پر مستزاد یہ ستم بھی ہے کہ روایتی بینکاری کو جن سانچوں میں ڈھالا گیا ہے وہاں اسلامی تصور اور دینی تشخص کے لئے نہ صرف یہ کہ کوئی خانہ کوئی گوشہ اور کوئی زاویہ خالی نہیں چھوڑا گیا بقول مفتی محمد تقی عثمانی کے سطحی فوائد کا طمع چڑھا کر ایسا دلکش اور نظر فریب بنا دیا گیا ہے کہ اسے تخلیق مغرب کی منحوس عینک اتارے بغیر بے ضرر نفع بخش بلکہ قطعاً ناگزیر ہی کہا جا سکتا ہے۔الغرض مغربی جمہوری تصور نے مسلمانوں کے تصور خلافت کے عملی نفاذ کے راستے میں جس طرح ہر قسم کی رکاوٹوں کے انبار لگا رکھے ہیں اسی طرح اس کے ذیلی جزء مغربی بینکاری نظام کے ذریعہ اسلام کے عادلانہ اقتصادی نظام کے عملی نفاذ کے تمام راستوں کو مسدود کرنے کے لئے بھی اپنی تمام تر صلاحیتیں اور کاوشیں بروئے کار لائی جا چکی ہیں۔اب ایسی سنگین صورتحال میں مجبوری و بے بسی اور پریشانی کے چوراہے پر کھڑی امتِ مسلمہ کہاں جائے اور کیا کرے۔چنانچہ امتِ مسلمہ کے بعض مفکرین اس طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے یہ کوشش شروع کی کہ مسلمانوں کو استعماری اقتصادی نظام کے تحت چلنے والے بینکوں سے نجات دلوائی جائے چنانچہ انہوں نے اسلامی بینکاری کا ایک خاکہ پیش کیا۔بینک اپنے بنیادی مغربی تصور سے ایسی اسلام کی ضد ہے جس کا اسلام کے ساتھ جمع ہونا روشنی اور اندھیرے کا ایک ساتھ جمع ہونے کے مترادف ہے کیونکہ بینک کا بنیادی تصور اصل سرمایہ کے تحفظ کی ضمانت اور نفع کی یقین دہانی پر قائم ہے اسلام میں ایسا معاملہ قرض اور اس پر متعین نفع کی شرط پر ہی ہو سکتا ہے جو کہ خالص سود ہو کر حرام قطعی کہلاتا ہے اس لئے کسی بینک کو اسلامی بینک کہنا ایسا ہی ہے جیسے اسلامی سود کہنا یا اسلامی شراب خانہ کہنا مگر جب سے بینک اپنے بنیادی تصور سے کچھ اوپر آکر تجارتی سرگرمیوں میں ادارہ اور فریق کی حیثیت سے حصہ دار بننے لگا تب سے بینک اور اسلام کے درمیان قربت کے کچھ محدود آثار محسوس کئے جانے لگے۔ کیونکہ بینک اگر واقعی سودی معاملات چھوڑ کر تجارتی ادارے کی حیثیت سے معاملات کرتا ہے تو اسلام بھی چونکہ سود کا متبادل شرعی تجارت کو ہی قرار دیتا ہے۔اس کے لئے بینک بحیثیت تجارتی ادارہ اور اسلام کے فراہم کردہ نعم البدل بیع شرعی کے درمیان ربط و اجتماع کے امکانات تسلیم کئے جا سکتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا ادارہ ہی ہوگا خواہ نام جکے اعتبار سے کمپنی کہا جائے یا بینک یا کچھ اور۔اس سلسلے میں تفصیل سے تحریر ایک الگ باب میں کی جائے گی۔

    لیکن ایسے ادارے کو اسلامی ادارہ یا اسلامی بینک کہنے کے لئے چند بنیادی اسلامی خصوصیات کا حامل ہونا ضروری ہے چنانچہ محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ سے لے کر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی تک ہمارے اکابر نے اسلامک بینکنگ کا جو تصور پیش کیا ہے اس کے مطالعہ سے اسلامی بینک میں مندرجہ ذیل خصوصیات کا پایا جانا انتہائی ضروری ہے۔

    اسلامی بینک کی پہلی خصوصیت بلکہ پہچان اور علامت یہ ہے کہ وہ شرکت و مضاربت کے شرعی اصولوں پر سرمایہ کاری کرے اور مالی استحکام ہو تو قرضِ حسنہ کے ذریعے لوگوں سے معاملات کرے اس کے علاوہ کوئی اور تمویلی طریقہ اسلامی بینک کی مستقل بنیادوں میں شریعت کی رو سے قابل قبول نہیں ہے۔

    اسلامی بینکاری شرعی تجارتی اصولوں پر مکمل پابندی کرے اور ایسے طریقوں پر سرمایہ کاری کرے جو دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پر متنج نہ ہوں جہاں امیر سے امیر تر بننے اور غریب سے غریب ٹھہرانے کے جذبات و تعلقات کارفرما نہ ہوں یعنی اسلامی بینک کے سامنے یہ روکاوٹ ہونا ضروری ہے کہ دولت کے دولت مندوں کے درمیان الٹ پھیر نہ ہو۔

    اسلامی بینک ایسے افکار و طریقے ہائے پر سرمایہ کاری نہ کرے جس سے معاشرے میں مہلک استحصالی جراثیم کا اضافہ ہوتا رہے یعنی (دوسروں کا مال ناحق ہتھیانے) کا فکر و عمل اسلامی بینکاری کے قریب نہیں بھٹکنا چاہیے۔

    اسلامی بینکاری میں ایسے حیلوں کو ہر گز راستہ نہیں ملنا چاہیے جن حیلوں سے مقاصد شریعت فوت ہوتے ہوں اور ان حیلوں کو سود کی روح باقی رکھنے کا ایک قانونی حیلہ بنایا جائے اور بینکاری نظام کی پوری عمارت ان حیلوں کو سود کی روح باقی رکھنے کا ایک قانونی حیلہ بنایا جائے اور بینکاری نظام کی پوری عمارت ان حیلوں پر کھڑی کر دی جائے اور اربوں کی سرمایہ کاری کے لئے حیلوں کو مدار بنایا جائے یہ قطعاَ جائز نہیں ہے۔

    اسلامی بینکاری کے نظام کو ایسی بنیادوں پر ہرگز نہ چلایا جائے جن سے اسلامی نظام سرمایہ کاری کا ناقص اور ادھورا تصور دنیا کے سامنے پیش ہو۔ پس جو نام نہاد اسلامی بینک اس خصوصیت سے عاری ہوگا وہ قطعاً غیر اسلامی ہوگا۔اب چونکہ باہر کی دنیا میں غیر اسلامی نظام رائج ہے جس کی بنیاد سود پر ہے اور بغیر بینک کے کوئی نظام آج کل چل نہیں سکتا تو ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ایسا نظام تجارت سوچیں اور ایسا بینک قائم کریں جو بغیر سود کے چل سکے چاہے وہ مضاربت کے اصول پر ہو یا شرکت کے قانون پر ہو نہ یہ کہ ہم یہ اندازِ فکر اختیار کریں کہ بینکنگ کے سود کو جائز ٹھہرائیں کہ وہ سود نہیں جس کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے میں سمجھتا ہوں کی بینک کا سود ہی سب سے بڑی لعنت ہے جس پر سرمایہ داری کی ساری عمارت قائم ہے۔اور یہی لعنت ہے جو اپنے رد عمل کے طور پر اشتمالیت و اشتراکیت کا سبب بن رہی ہے۔جب ہم غیر سودی بینکاری کا نام لیتے ہیں اور بینکنگ کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلانے کی بات کرتے ہیں تو اس کا منشاء یہ نہیں ہوتا کہ چند حیلوں کے ذریعے ہم موجودہ طریق کار کوذرا سا تبدیل کرکے سارا نظام جوں کا جوں برقرار رکھیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ سرمایہ داری کے پورے نظام کو تبدیل کرکے اسے اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالیں۔جس کے اثرات تقسیم دولت کے نظام پر بھی مرتب ہوں اور سرمایہ کاری کا اسلامی تصور یہ ہے کہ جو شخص کسی کاروبار کو سرمایہ فراہم کر رہا ہے وہ یا تو نفع کا مطالبہ نہ کرے یا اگر نفع کا مطالبہ کرتا ہے تو نقصان کے خطرے میں بھی شریک ہو لہذا غیر سودی بینکاری میں بنیادی طور پر اس تصور کا تحفظ ضروری ہے۔اب اگر بینک کا سارا نظام مارک اپ(جسے اسلامی بینکاری میں ربح اور اجرت رکھ دیا گیا ہے)کی بنیاد پر استوار کرلیا جائے تو سرمایہ کاری کا بنیادی اسلامی تصور آخر کہاں اطلاق پذیر ہوگا کیا اس حیلے کے ذریعے نظام تقسیم دولت کی مروجہ خرابیوں کا کوئی ہزارواں حصہ بھی کم ہو سکے گا اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو خدارا سوچئے کہ مارک اپ مروجہ نام نہاد ربح و کرایہ مرتب کا حیلہ استعمال کرکے ہم اسلامی نظام سرمایہ کاری کا کیا تصور دنیا کے سامنے
    پیش کر رہے ہیں۔حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا کردار بھی بہت اہم ہے اور انتہائی قابل قدر ہے بلاسود بینکاری کے لئے قانونی جنگ میں بھی انہوں نے اپنے شایان شان کردار ادا فرمایا۔بالاخر وہ اپنے منصب سے علیحدہ بھی ہوئے کیونکہ ہمارے خیال کے مطابق وہ صرف محسوس ہی نہیں بلکہ مشاہدہ بھی کر رہے تھے۔ہمارے خیال کے مطابق وہ بہت پہلے سے یہ بھانپ چکے تھے کہ مغربی سرمایہ داری نظام کی بالادستی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حکومتی سطح پر بلا سود بینکاری کی واقعی کوششیں نا ممکن ہیں ۔حضرت مفتی مولانا تقی عثمانی صاحب نے ایک مقالے میں کہا کہ سودی بینکاری کا حقیقی متبادل صرف دو چیزیں ہیں ایک نفع و نقصان میں شرکت کا معاملہ یعنی شرکت و مضاربت کی بنیاد پر سرمایہ کاری اور دوسرہ قرض حسنہ اس کے لئے خاطر خواہ مالی استحکام کی ضرورت ہے لیکن شرکت و مضاربت سے فرار کا عذر اسلامی بینکاری سے سودی بینکاری کی طرف فرار کے سوا کچھ نہیں۔

    بعض نا گزیر حالات اور عبوری دور کے لئے شرکت و مضاربت کے متبادل کے طور پر بیع مؤجل کے جو حیلے بتائے گئے ہیں ان کو معمول بنا لینا اور اسلامی بینکاری کی بنیاد تصور کر لینا نا جائز تھا کیونکہ ایسے حیلے محض اکا دکا موقعوں پر استعمال کئے جا سکتے ہیں ان حیلوں پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی عمارت کھڑی کر دینا کسی طور پر بھی جائز نہیں ہو سکتا۔

    مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ عملی طور پر جو نظام چل رہا ہے اس نظام میں ان حیلوں کو بھی مطلوبہ شرائط اور شرعی معیارات کے مطابق استعمال نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ طریقہ کار سود کو قانونی حیلے کے ذریعے از سر نو رواج دینے کا طریقہ ہے۔چنانچہ جمہور علماء کرام نے غور کیا تو یہ تینوں بنیادی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے مولانا محمد تقی عثمانی اور دیگر اہل علم نے پی ایل ایس اسکیم کو ناجائز اور خلاف شرح قرار دیا یہی خرابیاں بدرجہ اتم مروجہ اسلامی بینکاری میں بھی موجود ہیں۔بلکہ اس سے بڑھ کر خرابیاں پائی جا رہی ہیں کیونکہ اس اسکیم میں سود کو چور دروازے سے داخل کرنے کے خلاف شرح حیلوں کے استعمال کی خرابی لازم آرہی ہے جبکہ مروجہ اسلامی بینکاری میں سودی حیلوں پر خود مولانا کی تحریروں میں از خود اشکال در اشکال وارد کرکے ان کے جوابات اور تاویلات کا اچھا خاصہ سلسلہ موجود ہے۔مثال کے طور پر روایتی بینکوں کی شرح سود کو مروجہ اسلامی بینکوں کے نفع کے لئے معیار بنانا شرعی اصولوں کے مطابق درست نہیں ہے۔اس سلسلے میں حضرت نے خود بھی اس معیار کو سودی معاملات کے ساتھ مشاہبت کی وجہ سے کہیں نا جائز اور کہیں نا مناسب کہا ہے اور نا جائز ہونے کا ایک سبب بھی بیان فرمایا کہ اس صورت میں نفع تخمینی اور تقریبی ہوگا حقیقی مشکل اور یہ مشارکہ و مضاربہ کے اصولوں کے خلاف بھی ہے اور پھر اس کی تاویل کرتے ہوئے بعض حضرات کی طرف سے متبادل تجویز پیش فرمائی اور اس کو شریعت سے ہم آہنگ قرار دیا گیا۔اس سلسلے میں سب سے اہم بات جو سامنے آتی ہے وہ مکاتب فکر اور اہل علم حضرات کا ایک نقتہ پر متفق نہ ہونا بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے جس کا برائے راست تعلق بینکنگ کے معاملات کو گھمبیر کرنے اور ایک عام شخص کے ذہن میں وسوسوں کی برسات کے مترادف ہے۔ہم اگر اس سلسلے میں مختلف مکاتب فکر کے بیانات اور تجزیوں کا جائزہ لیں گے تو ہمیں علم ہوگا کہ آپس کا تضاد اسلامی بینکنگ کے قیام میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔اس لئے اسلامی بینکنگ کے قیام کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ علماء کرام اور اہل علم حضرات کا ایک میز پر یکجاء بیٹھ کر مشاورت سے ایسا متبادل نظام لانا جس میں اسلامی طریقہ کار شریعت کے مطابق ہو اور جس کے رائج ہونے سے اسلامی سارفین بینکنگ سے مستفید ہو سکیں اور ان سودی بینکوں کے قائم جال سے آزاد ہو کر ایک اسلامی فضاء میں دنیا بھر سے اپنے کاروباری تعلقات قائم کر سکیں۔ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے اسلامی بینکنک کے قیام کے لئے جو کوششیں اور ریسرچ کی وہ قابل قدر ضرور ہے مگر اس پر علماء اکرام کی عدم اعتمادی اسلامی بینکنگ کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہے۔حضرت صاحب نے کئی بار فرمایا کہ بعض جدید بینکاروں نے اس سودی مشاہبت کو عدم جواز کی موسلا دھار بارش سے بچانے کے لئے حقیقت پسندانہ جائزہ کی چھتری بھی تان رکھی ہے چنانچہ ان بینکاروں کی مستقل مصروفیت یہی بنی ہوئی ہے کہ ان حیلوں اور اس نظام پر جو جو اشکال ہوتا رہے اس کی تاویل کی جائے۔چنانچہ مولانا کی اس موضوع کی کتابوں سے لے کر جدید اسلامی بینکاروں کے حقیقت پسندانہ جائزوں تک اگر ہم مطالعہ کریں تو سود کے چور دروازوں کے جواز کی کئی تاویلات ملیں گی جس سے جمہور اہل علم کو
    یہ بات سمجھ آجائے گی کہ سابقہ بلا سود بینکاری میں وقتی حیلوں کو اربوں کی سرمایہ کاری کے لئے صرف بنیاد بنانے کی خرابی تھی جبکہ 1992کی بلا سود بینکاری میں حیلوں والی خرابی پر مستزاد ہر خرابی کی شرعی تاویل در تاویل کا وسیع سلسلہ بھی قائم ہے۔مزید یہ کہ اس نظام کی عملی تطبیق کے ذمہ داروں کی روایتی وعدہ خلافیوں کا تسلسل بھی نہیں ٹوٹا۔اس صورتحال کا تقاضہ تو یہ تھا کہ مروجہ اسلامی بینکاری کو جائز قرار دینے والے حضرات اہل علم دوسرے اہل علم سے پہلے خود ہی اسے جائز اور خلاف شریعت قرار دیتے اور مزید انتظار کے بجائے بلا سود بینکاری کی سابقہ کوششوں اور ان کے انجام کے تناظر میں مروجہ اسلامی بینکاری کے ساتھ تمویلی کاروباری تعلقات کو حرام قرار دیتے۔مگر تاحال اہل علم حضرات کی طرف سے ایسا کسی قسم کا فتویٰ سامنے نہیں آیا۔جو اس بات کی جانب نشاندہی ہے کہ ایک شریعت ایک قران ہونے کے باوجود ہمارے علماء کرام ایک بات پر متفق نہیں ہیں جس وجہ سے بینکنگ کے علاوہ عام معاشرے میں بھی عدم استحکام دیکھا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سودی بینکاری کی جڑیں ناسور کی شکل اختیار کرتے ہوئے اپنی اہمیت اور حیثیت کا بدستور قائم کئے ہوئے ہیں۔آج اسلامی بینکاری کو بھی کچھ علماء کرام نے غیر اسلامی قرار دیا ہے یہ صرف اس لئے ہوا کہ علماء کرام کے فقہی اختلافات اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔مروجہ اسلامی بینکاری مسلمانوں کے حق میں روایتی بینک کاری سے زیادہ خطرناک ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مروجہ اسلامی بینکوں میں اسلام اور فقہی اصطلاحوں کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ سنگین دھوکہ ہو رہا ہے ان بینکوں میں کہیں بھی اسلامی رنگ اور ان کے معاملات میں فقہی احکام کی رعایت نہیں ہو رہی بلکہ اسلام کے نام پر رائج ہونے والی بینکاری کے حامی علمائے کرام کے نام اور ان کے فتوے ان کے مقاصد کی تکمیل پر ہی استعمال ہو رہے ہیں جن کا خدشہ اسلام کے نام پر شروع ہونے والی اس بینکاری کی پہلی مجلس کے وقت سے ہی محسوس کیا جا رہا ہے۔اس بات کا اظہار اس مجلس کے صدر نشین حضرت اقدس مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمتہ اللہ نے ان الفاظ میں فرمایا تھا۔علماء انفرادی و اجتماعی طور پر تمام سودی اداروں کو متبادل سود سے پاک جائز طریقے مسلسل بتاتے چلے آرہے ہیں ان اداروں کے ذمہ خوب تشہیر بھی کرتے ہیں۔ہم نے سودی نظام کو علمائے کرام کی تجاویز کے مطابق خالص شرعی نظام میں تبدیل کر دیا ہے۔مگر بعد میں یہ معلوم کر کے سخت افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ بدستور سودی نظام ہی چلا رہے ہیں اور علمائے کرام کی تجاویز کو قبول کرنے کی تشہیر صرف عوام کو دھوکا اور فریب دینے کے کئے کر رہے ہیں۔چنانچہ ملک کے جمہور اہل فتویٰ نے قران و سنت احوال واقعی اور حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کی تحریرات کی روشنی میں دو ٹوک الفاظ میں یہ موقف اختیار کیا کہ سرمایہ کاری کا اسلامی تصور نفع و نقصان کی بنیاد پر شرکت و مضاربت ہے جس کا مروجہ اسلامی بینکوں میں کوئی خاطر خواہ حجم نہیں پایا جاتا بلکہ مروجہ اسلامی بینکاری میں مرابحہ اجارہ اور شرکت میناضہ کے نام سے جو سودی حیلے اختیار کئے گئے ہیں وہ ایک تو شرکت و مضاربت کے شرعی مقصد اور مثالی تمویلی طریقے کو فوت کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں دوسرے یہ کہ ان حیلوں پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنا اور حیلوں کو معمول کے کاروبار کا طریقہ بنا لینا قطعاً نا جائز ہے ان حیلوں کے ذریعہ حاصل ہونے والا مرابحہ کا ربح اور اجارہ کی اجرت1981کی بلاسودی بینکاری کے مارک اپ سے مختلف نہیں جس طرح مارک اپ شرعی اعتبار سے خالص سود ہے بالکل اسی طرح مروجہ مرابحہ کا ربح اور اجارہ کی اجرت بھی سود ہے اور روایتی بینکاری میں اسلامی پیوند کاری کے گھناؤنے جرم کے مترادف ہے۔بلکہ مروجہ اسلامی بینکوں نے اپنی ترقی کی معراج یہ سمجھ رکھی ہے کہ وہ روایتی پروڈکٹس بنا کر اسلامی لبادے میں متعارف کرائیں یہ ان کا مشن بنا ہوا ہے۔ایسے بینک قران اور سنت اور اکابر کی تصریحات کے مطابق غیر سودی یا اسلامی قطعاً نہیں ہو سکتے اگر اس کے باوجود کوئی ان بینکوں کو اسلامی کہنے لگے اور اسلامی جتلائے یا اصرار کرے تو یہ اسلام کے نام پر دھوکہ ہوگا اور یہ طرز عمل حرام چیز پر اسلامی لیبل لگا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے مترادف ہے جو ایمانی لحاظ سے انتہائی خطرناک ہے۔

    نوٹ۔ مذکورہ تحریر، تحریر نگار کی ذاتی رائے ہے۔۔۔اس سے بلاگ ایڈیٹر کا متفق ہونا لازمی نہیں۔


    شاركه على جوجل بلس

    عن Unknown

      تعليقات بلوجر
      تعليقات فيسبوك

    1 comments:

    1. کیا پاکستان میں کوئی ایسا بینک ہے جو اسلامی تقاضے پورے کر رہا ہو، مثلا میزان بینک یا بینک اسلامی وغیرہ

      ReplyDelete