جديدنا

اسلامی بینکاری کے اہم ارکان کا تنقیدی جائزہ









    اسلامی بینکاری کے اہم ارکان کا تنقیدی جائزہ        تحریر: نسیم شیخ




    اسلامی بینک کاری کو جاننے کے لئے اس میں استعمال شدہ اہم اصطلاحات کا جائزہ
    لینا انتہائی اہمیت کا حامل
    ہے اس اہم موضوع پر بحث کرنے سے قبل اس کے اہم
    اصطلاحات کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے۔مروجہ اسلامی بینکاری کا ابتدائی
    ڈھانچہ کھڑا کرنے کے لئے چھ اسلامی ستونوں کا سہارہ لیا گیا وہ چھ ستون یہ
    ہیں۔




    (ایک)مضاربہ(دو) مشارکہ (تین) مرابحہ (چار) اجارہ(پانچ)سلم (چھ)
    استصناع



    ان چھ ستونوں کے علاوہ مروجہ بینکاری نظام میں کمپنی تصور کے مطابق شخص
    قانونی کا ستون بھی مستعار لیا گیا ہے اسلامی بینکاری کا یہ ڈھانچہ ہوس زر
    کی غیر معتدل آندھیوں کی وجہ سے گھوم کر اس وقت مرابحہ اجارہ شرکت متناضہ
    اور شخص قانونی جیسی غیر مرئی طاقت پر ٹکا ہوا ہے تاہم یہ ساری عقودی
    اصلاحیں چونکہ مروجہ اسلامی بینکاری کے لئے استعمال ہوئی ہیں اس لئے ان چھ
    اصطلاحوں کے استعمال سے متعلق مختصراً یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان
    اصطلاحوں کے استعمال میں اسلامی بینکوں کے حامی حضرات نے کترو بیونت سے کام
    لیا۔ جیسے فقہی ابواب میں عام طور پر مضاربہ کے ساتھ شرکت کا لفظ استعمال
    ہوتا ہے نہ کہ مشارکہ کا ،مشارکہ کہنے کی نوبت شاید اس لئے آئی ہو کہ مروجہ
    مشترکہ کاروباری سلسلہ کمپنی کہلاتا ہے اور کمپنی
    شرکت شرعیہ کی کسی قسم
    کے تحت صحیح طور پر داخل نہیں ہو سکتی اس لئے کمپنی کے مفہوم و مصداق کو
    ظاہر کرنے کے لئے مشارکہ کا لفظ زیادہ مدد دیتا ہے کیونکہ اس کا لغوی معنیٰ
    ہے باہمی اشتراک کا معاملہ کرنا ۔اسی لغوی معنیٰ کے پیش نظر مشترکہ تجارتی
    شکل کا مفہوم بتانے کے لئے شرکت کے بجائے مشارکہ کا لفظ استعمال کیا جاتا
    ہے۔اسی طرح ایک خاص ضرورت کے تحت مشارکہ کے ضمن میں شرکت متناقصہ کی اصطلاح
    بھی نکال ڈالی جبکہ شرکت متناقصہ کی اصلاح شریعت میں بالکل مفقود ہے اس
    معاملے کی کسی اسلامی عقدسے مشاہہت نہیں تھی۔اس لئے اسے اسلامی عربی نام
    دینے کے لئے مجبوری کے تحت شرکت متناقصہ کی اصطلاح متعارف کرائی گئی یہی
    وجہ ہے کہ یہ تمویلی صورت شرکت کے لفظی عنصر کے باوجود مروجہ اسلامی
    بینکاری میں بہت اہم نفع بخش تمویلی طریقہ کے طور پر استعمال ہو رہی
    ہے۔یہاں یہ بھی حقیقت ہے دو فقہی اصطلاحوں کا خلط دومج ہے یہ بیع کی دو الگ
    قسمیں ہیں ایک ہے بیع المرابحہ اور دوسری بیع الموجل دونوں الگ الگ اقسام
    ہیں بیع مرابحہ کسی مدت اور وقت کے ساتھ مقید نہیں ہوتی جبکہ بیع موجل طویل
    مدتی یا قصیر المدتی معاہدوں کے ساتھ ہونے والی بیع کہلاتی ہے بیع کی ان
    دونوں اقسام کو جس مقصد کے لئے خلط کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مروجہ بینکاری
    نظام میں سودی قرضہ جات اور تقسیطی اجارہ جسے لیزنگ کہا جاتا ہے جو نفع بخش
    طریقہ ہے اسے اسلامی بینک میں اسلامی اور فقہی نام سے جاری کیا جا سکے۔

    اسی طرح سلم و استصناع کے حوالے سے ہمیں اپنے کرم فرماؤں سے نا انصافی کا
    شکوہ ہے کیونکہ انہوں نے ان دو فقہی اصطلاحوں کو اسلامی بینکاری کے ستونوں
    میں شمار تو کیا مگر اسلامی بینکاری میں ان کا کردار معدوم یا کالمعدوم کے
    درجہ میں ہے حالانکہ مرابحہ موجلہ کی طرح سلم سے بھی کئی کثیر الفوائد
    منافع حاصل ہو سکتے ہیں کیونکہ بیوع الی الاجال عام طور پر معمولی بے
    احتیاطی سے سود خوروں کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ پھر بات
    آجاتی ہے شخص قانونی کہ یہ کیا چیز ہے اس پر روشنی ڈالنے کے لئے چند لفظوں
    کا سہارہ لونگا جو آپ کی خدمت میں پیش ہیں شخص قانونی کی فقہی جراحی تو
    اگلے صفحات میں قدرے تفصیل سے عرض کریں گے(مزید مضامین بھی بلاگ میں وقتاً فوقتاً پیش ہونگے) یہاں صرف اتنا کہنا ضروری ہے کہ
    شخص قانونی کے غیر مرئی و فرضی وجود اور فقہہ اسلامی میں غیرمانوس اصطلاح
    اور اس کی محدود ذمہ داری کو ثابت کرنے کے لئے بیت المال وقف ترکہ مستغرقہ
    بالدین خلطتہ الشیوخ عبد امذون اور مضارب کی محدود ذمہ داریاں وغیرہ کی
    مثالیں جس طرح پیش فرمائی گئیں ہیں اس قیاس میں بے انتہا علمی طاقت اور بے
    پناہ ملکہ اسنباط کی بچتیں صرف ہوئی ہیں اور یہ سب کچھ اس لئے برداشت کیا
    گیا ہے کہ یہ ثابت ہو سکے کہ ملکی غیر اسلامی قانون میں شخص قانونی کا جو
    تصور پایا جاتا ہے اسے مشرف بااسلام کیا جائے۔اور اسلامی بینکاری میں اس سے
    وہی خدمات لی جائیں جو خدمات وہ شخص قانونی سودی بینکوں میں انجام دے رہا
    ہے تاکہ اسلامی بینک بینکاری کی دوڑ میں کسی طور پر بھی روایتی بینک سے
    پیچھے نہ رہ جائے اور کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہ ہو اور کم آمدنی
    کے عیب دار داغ سے محفوظ رہ سکے۔ممکن ہے ہمارے معاصر اہل علم یہ فرمائیں کہ
    فقہی اصطلاحات کوئی منصوبی تھوڑی ہی ہیں یہ استقرائی ہیں اور ہمارا
    استقراء فقہا کرام ہی کی تقلید ہے اور لامشاحتہ فی الاصطلاح کا اصل معروف
    بھی ہمیں منع نہیں کرتا۔بلکہ اجازت دیتا ہے بلا شبہ یہی بات ہے مگر غور طلب
    بات یہ ہے کہ بینکنگ کا جواز اور اس کی ضرورت بیان کرتے ہوئے یہ نظریہ عام
    کیا جاتا ہے کہ بینکنگ دنیا کی مجبوری بن چکی ہے اور ادھر بینکنگ کے لئے
    ایک منظم و مرتب نظام بھی اس کا لازمہ ہے چنانچہ بینک کے موجدین نے اپنی
    فکر و تصور کے مطابق اس نظام کی جزئیات و کلیات مرتب کیں اور ایسے قالب
    سانچے بنائے کہ بینک سے دائمی طور پر تادیر بنیادی فکر و تصور کے مطابق
    فوائد و نتائج خود بخود حاصل ہوتے رہیں۔اس نظام کی مثال کسی فیکٹری کے ان
    سانچوں کی ہے جنہیں مخصوص شکل و صورت والا سامان بنانے کے لئے تیار کیا گیا
    ہو اگر اس سانچے میں ذرا بھر فرق کیا جائے تو مطلوبہ سامان مرغوبہ شکل و
    صورت کے مطابق حاصل نہیں ہو سکتا یا اس مرتب بینکاری نظام کی مثال ایسی
    مشینری سے بھی دی جا سکتی ہے۔جس کے کارامد رہنے کے لئے اس کے تمام پرزوں کا
    اپنی اپنی جگہ پر ہونا ضروری ہے اگر کوئی پرزہ اپنی جگہ سے معمولی سا ہل
    جائے یا نکل جائے تو یہ مشین اپنا کام چھوڑ دے گی یا صحیح طور پر کام بجا
    نہیں لائے گی اس لئے بینکنگ کے نظام کو بلا کم و کاست دنیا کا نظام کو
    چلانے کے لئے مجبوری قرار دیا جاتا ہے۔اور بینکار حضرات اس نظام میں کسی
    قسم کے ردوبدل کے روادار نہیں اگر کسی حد تک رضا مند ہو بھی جائیں تو اپنی
    بنیادی فکری پالیسی کے تقاضوں کی بھرپور پاسداری کے ساتھ مثال کے طور پر ہم
    پاکستان میں کوئی بینک بنانے کے لئے اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے پابند رہیں
    گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مزکزی بینک بد قسمتی سے عالمی مالیاتی
    اداروں کی پالیسی کا تابع بنا ہوا ہے۔مروجہ بینکاری نظام اسلامی فلسفہ سے
    تصادم کی فکر پر قائم ہے جبکہ دنیا کی1/6 آبادی اسلام کی پیروکار ہے مگر
    بینک کا نظام اس کی پرواہ نہیں کرتا یہاں تک کہ اسلام کے دو عظیم مراکز
    سعودی عرب اور پاکستان کے لئے بھی اپنے سانچوں میں کسی ایسے ردوبدل کا قائل
    نہیں کہ یہ لوگ اپنی اسلامی فکر کے تحت عالمی بینکاری نظام سے آزاد رہ کر
    اپنا کوئی خالص اسلامی مالیاتی بینکاری نظام چلاسکیں۔مگر افسوس کا مقام یہ
    ہے کہ ہمارا اسلامی نظام اور اس کی فقہی دفعات اتنی مظلوم اور لاوارث ہیں
    کہ گویا جدید اسلامی بینکاروں کے علاوہ اس ذخیرے کا کوئی اور وارث نہیں اور
    یہ لوگ اسلامی دفعات میں جب اور جس قسم کی قتع و برید کرنا چاہیں اس میں
    کوئی مضائقہ نہیں ہے یا سادہ الفاظ میں یوں کہیں کہ بینکنگ کے تابع بنا
    دیتے ہیں تاکہ دنیا کے نظام میں اسلام کا حصہ بھی ہو جائے اور اسلام و مغرب
    کا تقریبی مظہر پیش ہو سکے۔اسلامی بینکاری کے ضمن میں غرر کا بھی بسا
    اوقات تذکرہ آتا ہے جہاں تک غرر کا تعلق ہے اگر اس کی صحیح تطبیقی تشریح ہو
    جائے تو یہ اسلامی بینکاری کی صحت کے لئے داء عضال(لاعلاج بیماری) ہے اسی
    خطرے کے پیش نظر کوئی بینکار ڈاکٹر صاحب اس موضوع پر اسپیشلائزیشن فرما چکے
    ہیں اور انہوں نے سینکڑوں صفحات پر مشتمل ایک سے زائد مقالے بھی لکھے ہیں
    مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی تشخیص میں مریض اسلامی بینک کے علاج سے
    زیادہ حسب عادت دفاع نمایاں ہے۔








    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ









    شاركه على جوجل بلس

    عن Unknown

      تعليقات بلوجر
      تعليقات فيسبوك

    2 comments:

    1. ١. اصول یہ ہے جو منع یا حرام نہیں ،وہ مبا ح ہے . شخص قانونی کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ modes of financing کے حوالہ جات ہیں ،لیکن یہ کہیں بھی نہیں بتایا گیا کہ کس نص کی خلاف ورزی ہو رہی ہے یا فلاں نص سے متعارض ہے. یاد رکھیں نصوص بہت کم ہیں اور پیش آمدہ مسائل بہت زیادہ ہیں. اس لیے صرف دیکھنا یہ ہے کہ کسی نص کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی اور نہ کہ یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ فلاں نص کے عین مطابق ہے.

      ٢ مضاربہ اور شرکت کو ملا کر اب نئی ا صطلا ح "مشرکہ" بنائی گئی ہے. اس میں بنیادی اصول یہی کار فرما ہونا چاہے ،ہوتا ہے کہ، جو حرام یا منع نہیں وہ مباح ہے. مضاربہ modes of financing کا چلن نہ ہونے کے برابر ہے وہ اس لیے فقہاء نے اپنے اپنے وقتوں کے مزاج کے مطابق جو اصول وضح کیے تھے اور جو فتاویٰ اس کے متعلق ہیں وہ کتابوں میں ملتے ہیں ، بطورعظیم فقہی لٹریچر اور نظائر کےان سے کام لیا جا سکتا ہے لیکن اب وہ فتاویٰ شریعت اسلامیہ کے خادم نہیں رہے، کیونکہ پاکستان اور اس سے ملتے جلتے ممالک میں اس کا چلن ہو ہی نہیں سکتا، جو حضرا ت اس پر مصر ہیں وہ چونکہ عملی بنکنگ کو نہیں جانتے اس لیے اصرار کرتے ہیں.

      ٣.اگر مضاربہ یا قراض کا چلن ممکن ہے تو یہ عام معا شرے میں ممکن ہے جہاں لوگ ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنا سرمایا دے دیتے ہیں اور باہمی رضامندی اور ایمانداری کے تحت کام کر سکتے ہیں ،اس کے متعلق ایک مضمون جناب ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب شر یعہ اکادمی،اسلام آباد نے سہ ماہی فکرو نظر میں لکھا تھا ،جس میں ضروری قانون سازی کے لیے کہا گیا تھا.لیکن اس کے لیے بھی بنک کی ضرورت نہیں ،یہ بھی امداد باہمی انجمنوں یا کارپوریٹ طریق سے ہو سکتا ہے .

      مضاربہ کے لیےجو چربہ کتابوں فقہی کتابوں سے اخذ ہوتا ہے اس میں غرر کا عنصر رواتی طریقہ تمویل سے بھی زیادہ پایا جاتا ہے، اگر اسے صحیح شریعت کی نصوص کومد نظر کو رکھا کر ترتیب دیا جاۓ تو فقہی کتابوں سے بہت ہٹ کر ہو گا. -------بہرحال زیر بحث مضمون میں یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے ------------"اسلامی بینکاری کے ضمن میں غرر کا بھی بسا اوقات تذکرہ آتا ہے جہاں تک غرر کا تعلق ہے اگر اس کی صحیح تطبیقی تشریح ہو جائے تو یہ اسلامی بینکاری کی صحت کے لئے داء عضال(لاعلاج بیماری) ہے اسی خطرے کے پیش نظر کوئی بینکار ڈاکٹر صاحب اس موضوع پر اسپیشلائزیشن فرما چکے ہیں اور انہوں نے سینکڑوں صفحات پر مشتمل ایک سے زائد مقالے بھی لکھے ہیں مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی تشخیص میں مریض اسلامی بینک کے علاج سے زیادہ حسب عادت دفاع نمایاں ہے۔"اس موضوع پر اسلامی سکالرز کو غور کرنا چاہے ہے .

      ReplyDelete
    2. یہ تو نقل کى ہوئ تحریر ہے

      ReplyDelete