جديدنا

انا، خودی اور ایگو وغیرہ کے متعلق مباحث ﴿قسط نمبر2 ﴾






    انا، خودی اور ایگو وغیرہ کے متعلق مباحث   ﴿قسط نمبر2 ﴾۔۔۔۔تحریر و تحقیق۔ چوہدری طالب حسین






    "ژنگ کے نفسیاتی نظریات " سے کچھ اقباسات .

    انا اور "شخصا":-

    انا کی نشو و نما کے ساتھ انسان کو اپنا سماجی کردار ادا کرنے لیے اپنا ایک قابل قبول چہرہ بنانا پڑتا ہے، یہ ہماری اصل شخصیت نہیں. انا اسے اپنے بعض خاص مقاصد کے لیے تیار کرتی ہے(مثلاّ دفتری قواعد کے مطابق ہمیں خاص طرح کا لباس پہننا چاہیے -ماتحتوں سے خاص طرح بات کرنی چاہیے-نوکر شاہی میں بالخصوص یہ چہرہ انسانی شخصیت پر پوری طرح حاوی ہو جاتا ہے ).اسی طرح اپنے دائرۂ عمل میں ہم اس طرح کا چہرہ بنا کر بیٹھتے


    ہیں ،ماہر نفسیات ژنگ اس کے لیے پرسونا Persona کی اصطلاح استعمال کرتا ہے جس کا اردو ترجمہ بالعموم "نقاب" کیا جاتا ہے جو اس لیے غلط ہے کہ نقاب تو بالعموم چہرے کو چھپانے کے لیے ڈالی جاتی ہے. یہاں تو چہرے پر ایک مصنوعی چہرہ چڑھا لینے کی بات ہو رہی ہے. Persona وہ نقلی چہرہ تھا جو قدیم یو نانی یا رومی اداکار اپنا اپنا پارٹ ادا کرتے وقت لگا لیتے تھے. اس کا ترجمہ مکھوٹا بھی کیا جا سکتا ہے ،لیکن مکھوٹے سے ماسک Mask مراد ہے . دونوں میں تمیز قائم رکھنے کے لیے بہتر یہ ہو گا کہ پرسونا کا ترجمہ "شخصا " کیا جاےٴ.



    یہ" شخصا" انا اور خارجی ماحول کے درمیان حفاظتی خول ہے.یہ ہماری شخصیت پر اتنا حاوی ہو جاتا ہے کہ فرانسس جی-وکز (Frances G Wickes)کے الفاظ میں اچھا وکیل،استاد یا پادری بننے کی فکر میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دراصل ہمیں اچھا انسان بننا ہے. یہ شخصا ہماری برہنہ انا اور خارجی دنیا کے درمیان ثالثی
    کرتا ہے لیکن اگر یہ شخصا ہماری پوری شخصیت پر حاوی ہو جاۓ تو خطرے کی بات ہے . ہمارے اپنے معاشرے میں ایسی شخصیتوں کی کمی نہیں جو سر سے پاؤں تک شخصا ہی شخصا ہیں اور وہ شخصے کو بچانے کی خاطر چھوٹے موٹے اقتدار کے ہر وقت متمنی رہتے ہیں اور جب ان سے وہ ملازمت چھن جاۓ جس نے انہیں یہ شخصا مہیا کیا تھا تو وہ مضحکہ خیز بن کر رہ جاتے ہیں.



    ماہر نفسیات ژنگ کے مقبول نظریات میں "تلازمی آزمائش" Association Test اور شخصیتوں کی نفسیاتی انواع Psychological Types قابل توجہ ہیں اور نفسیات کے حلقوں میں انہیں بالعموم قبول کیا جاتا ہے .شخصیت کی نفسیاتی انواع کے تحت زنگ نے انسانی شخصیت کے چار تفاعل Function گنوانے ہیں -- تحسس Sensation- -احساس Feeling--- وجدان Intuition -- تفکر Thinking.



    ان نظریات سے آگے چلیں تو زنگ کے نسبتا گہرے تصورات سے واسطہ پڑتا ہے. ایڈورڈ ایف -ایڈنگر نے اپنی ایک تصنیف میں لکھا ہے کہ زنگ کا سب سے بنیادی اور دور رس نتائج کا حامل انکشاف"اجتماعی لا شعور" یا "نخست مثالی " Archetypal نفس ہے. زنگ کی تحقیقات سے یہ آگاہی ملتی ہے کہ فرد کا نفس صرف ذاتی تجربات کی پیدوار نہیں اس کی ایک جہت ان تجربوں سے ماورا ہے اور اس کا ظہور ان تمثالوں Images اور آفاقی وضعتوں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر کی اساطیر اور مذاہب میں ملتی ہے. اس سے آگے چل کر ژنگ یہ بھی بتاتا ہے کہ نخست مثالی نفس میں ایسا تنظیمی اصول موجود ہے جو مختلف النوع نخست مثالی مشمولات میں وحدت پیدا کرتا ہے. یہ مرکزی نخست مثال ذات Self ہے. ذات،نفس(جس میں شعور اور لا شعور دونو ں شامل ہیں) کا تنظیمی مرکز ہے. جبکہ انا Ego شعوری شخصیت کا مرکز ہے.

    ١٨٩٩ ء میں وی آنا کے دکتر سگمنڈ فرایڈ کی کتاب The Interpretation of Dreams شائع ہوئی جس میں انسانی ذہن کے غیر عقلی عناصر کے طریق کر پر روشنی ڈالی گئی تھی. فرایڈ نے خوابوں کو لا شعور کی کلید بتایا اور ان کی تشریح کر کے لا شعوری محرکات کو سمجھنے کی کوشش کی . اس نظرے نے بہت سے نوجوانوں کو متاثرکیا .کارل گستاؤ زنگ(١٨٧٥ -١٩٦١ِ ع) فرایڈ سے ١٩ سال چھوٹا تھا اور نفسیات کے شعبے میں کچھ کام کر چکا تھا ،اسی لیے فرایڈ نے اسے اپنا والی عہد بنانے کی کوشش کی ،لیکن زنگ اور فرایڈ کی راہیں مختلف تھیں
    .زنگ نے فرایڈ کے اس نظرے کے بارے میں رد عمل کا اظہار کیا کہ عصبا نیت کی بنیاد صرف دبی ہوئی جنسی خوا ہشات پر ہوتی ہے. پھر لا شعور کے بارے میں اس کی تحقیقات اسے ذاتی لا شعور سے اجتماعی لا شعور Collective Unconscious کے تصور کی طرف لے گئیں .فرائیڈ کے نظریات میں لا شعور ،دبی ہوئی خطرناک خواہشات کی کمین گاہ کی طرح تھا جبکہ زنگ نے ان " بھوتوں" کی دنیا سے پرے نور کی مملکت بھی دیکھی. یہ نخست مثالوں Archetypes کی دنیا ہے جو ان داخلی قوتوں کے رموز کا درجہ رکھتی ہے، جو وحدت،صحت اور زندگی کی کلیت کی طرف لے جاتی ہیں لیکن چونکہ تخریبی خواہشیں پل بھر میں بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتی ہیں اس لیے شعور اور لا شعور میں با مقصد ارتباط کی ضرورت ہے. اس پس منظر میں ایرخ فروم کا یہ کہنا درست ہے زنگ کے ہاں "لاشعور" قوت کا خزینہ ہے

    "اجتماعی لاشعور " ذاتی لا شعور سے کہیں زیادہ گہرا ہے، اجتماعی لا شعور کو معروضی نفس بھی کہا گیا ہے.جولینڈ جیکوبی نے لکھا ہے کہ یہ فرایڈ اور زنگ کا بنیادی فرق ہے کیونکہ فرائیڈ کے نظریات میں لاشعور محض ذاتی ہے

    جولینڈ جیکوبی نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ ایک طرف اجتماعی شعور کی دنیا ہے دوسری طرف اجتماعی لا شعور کی دنیا، ان کے درمیان انا ہے جو خود شعور کا مرکز ہے مگر اسے دونوں طرف سے ہڑپ ہونے کا خطرہ ہے اگر اسے اجتماعی شعور کی دنیا ہڑپ کر لے تو Mass man ظاہر ہو گا. اگر یہ اجتماعی لا شعور کی دنیا میں گم ہو جاۓ تو خبطی اور ذہنی مرض میں مبتلا فرد باقی رہ جاۓ گا. انا کو دونوں دنیاؤں کے درمیان ربط قائم رکھنے کا فریضہ ادا کرنا چاہے. زنگ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ " خواب،نفس کا اپنے بارے میں بیان ہے چنانچہ خواب میں اجتماعی لاشعور کی نخست مثالیں علامتی مثالوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں. زنگ ان تمثالوں کی تشریح فرائیڈ کی طرح کسری انداز میں نہیں کرتا بلکہ انہیں مکبر شکل کے ساتھ یعنی اجتماعی لاشعور کی نخست مثال کے ساتھ وابستہ کرتا ہے . اس اعتبار سے دیکھا جاۓ تو زنگ کی نفسیات کا بنیادی مسلہء" معانی کی تلاش" ہے.وہ انسانی شخصیت اور انسانی زندگی کے معانی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے . جدید بحرانی زمانے میں یہ رجحان انتہائی اہم ہے کیونکہ کھوکھلی عقلیت اور اکہری مادیت کے رجحان نے روح اور نفس کی دنیا سے فرد کو بیگانہ کر دیا ہے .ہر شخص معانی کی پیاس رکھتا ہے مگر وہ سر چشمے گم ہو گنے ہیں جہاں سے یہ پیاس بھجائی جاسکتی ہے . اپنے نفس سے معنی خیز ربط قائم کر کے یہ پیاس بجھ سکتی ہے.

    انگریزی شاعرہ رین نے کہا ،فرایڈ نے یقینا لا شعور کو دریافت یا از سر نو دریافت کیا لیکن اسے ایک لمحے کے لیے بھی احساس نہیں ہوا کہ اس نے دراصل کتنے بڑے براعظم کو دریافت کر لیا تھا. عالم کیتھلیں رین نے اپنے ایک انٹر ویو میں زنگ کی فکر کی حدود کو تسلیم کرتے ہوے بھی اس کا دفاع یوں بھی کیا ." میرے خیال میں زنگ نے یہ بھانپ لیا کہ اندرونی دنیائیں علم کے محض ایسے منطقے نہیں ہیں جنھیں شعور سے بالجبر پرے دھکیل دیا گیا ہو . فرایڈ کا فلسفہ دراصل مادہ پرست فلسفہ ہے: لاشعور میں کوئی ایسی شی نہیں جو حواس کی دنیا سے ہو کر نہ آتی ہو. زنگ نے پہچان لیا کہ یہ بھی زندگی کا ایک علاقہ ہے اور یہ کہ نفس زندہ ہے اور اس کے اپنے قوانین ہیں،اپنا ڈھانچہ ہے اور وہ ہر فرد میں نوائےسروش کے مانند ہےجو ، گو زنگ نے یہ بات کبھی صاف صاف نہیں کہی، ایک الوہی ماخذ اور انسانی دل کے مابین واسطہ پیدا کرتی ہے، لیکن اس نے کبھی اس بات سے صاف صاف انکار بھی نہیں کیا، میں سمجھتی ہوں کہ زنگ بڑی احتیاط سے کام لے کر اپنی تعلیمات کو طبی سائنس کی اصطلاحات کے دائرے میں رکھتا تھا کیونکہ اسے پتا تھا کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اسے خبطی قرار دے کر ٹال دیا جاۓ گا"

    "---پلوتنیس یا نو افلاطونیوں کی مکمل کونیات کا دائرۂ زنگ کی نفسیات سے زیادہ وسیع ہے.افلاطون کی مکمل کونیات میں فرض کیا گیا ہے کہ دنیائیں چار ہیں . ان میں سے ایک نفس ہے. زنگ دوسری دنیاوں کے وجود سے منکر ہونےبغیر ،صرف نفس کی بات کرتا ہے.زنگ کی عظیم اہمیت اس بات میں ہے کہ انسان ہونے کی ناتے ہم ان علامتوں کو اپنے نفس کی ذریعے ہی سے جان سکتے ہیں جنہیں پلوتینس نے، جو ایک مقتدر صوفی ہے، شائد ایک بلند تر سطح پر جانا ہو گا .

    لیکن زنگ کی صفائی میں یہ ضرور کہوں گی کہ ہم حقیقت سے نفس کہ اندر ہی دوچار ہوتے ہیں،وہیں یہ علامتیں ہمیں آکر ملتی ہیں .جب ہم اپنے خوابوں یا مکاشفوں میں کسی خاص علامت کے آمنے سامنے ہوتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ وہ علامت جائز ہے. اس بارے میں کسی قیل و قال کی گنجائش نہیں کیونکہ وہ ایک زندہ تجربہ ہوتا ہے. اس نقطہ نظر سے دیکھا جاۓ تو میں سمجھتی ہوں کہ اس عہد میں ہم پر زنگ کا اتنا احسان ہے جس کی کوئی حد نہیں...."



    کیتھلین رین کی وضاحت بڑی عمدہ ہے مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مغرب میں مذھبی علامات جامد ہو چکی ہیں
    چانچہ وہاں یہ تجزیہ بالکل درست ہے لیکن جس معاشرے میں مذہبی علامات زندہ اور فعال ہوں کیا وہاں بھی اس کا انطباق پوری طرح ممکن ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ جائز ہے. تاہم اس معاشرے میں جدید زندگی کے زیر اثر خصوصاّ تعلیم یافتہ طبقے میں ایسے رجحانات پیدا ہو چکے ہوں گےجہاں اس تجزیے کا جواز موجود ہو گا.



    ایرا پوگوف کا کہنا ہے کہ زنگ کے نظریات کا تکمیلی نقطہ شخصیت کی یک جہتی Integration کا تصور ہے. یہ صرف شخصی ارتقاء کا ایک مقصد نہیں یہ ایسا عمل ہے جو نفس کی فطرت میں پوشیدہ ہے. زنگ اس کے لیے فردیت Individuation کی اصطلاح استعمال کرتا ہے. اس کے دو پہلو ہیں ایک تو فرد کی سطح پر یہ نفسیاتی علاج ہے. دوسری سطح پر یہ آفاقی نفسی فعل ہے جو عظیم مذاہب اور فلسفوں کی علامات کے پس منظر میں کارفرما ہے. علاج کی سطح پر یہ نفس میں توازن پیدا کرنے کا نام ہے. دوسری سطح پر یہ اساطیر اور علامات کی لا تعداد اور رنگا رنگ شکلوں کے پیچھے کار فرما شعور ذات کی نخست مثالی تلاش کا مظہر ہے. فردیت کے ذریعے انسان کی صلاحتیں برونے کار آتی ہیں. یہ ایسا توازن ہے جس کے ذریعے شعور اور لا شعور میں ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے. شخصیت کی بنیادی آزمائش یہ ہے کہ کیا اس کے غالب شعوری عناصر درست عمل کر رہے ہیں.؟ کیونکہ جب یہ عناصر روزمرہ کی حقیقت سے تخالف اور تصادم کی حالت میں ہوں تو تمام تر نفس انتشار کی کفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے.



    زنگ علامت اور نشان Sign میں امتیاز بتاتا ہے. نشان ایک جانی بوجھی شے کی نمائندگی کے لیے ایک شکل ہے. مثلاّ ٹریفک کے نشان جن کے ذریعے ہم سرخ بتی کو دیکھ کر رک جاتے ہیں اور سبز بتی کو دیکھ کر چل پڑتے ہیں. اسی طرح تمثیل Allegory میں شعوری طور پر کچھ مجرد تصورات کی نمائندگی مجسم اشیا سے کرائی جاتی ہے. دوسری طرف علامت نہ محض نشان ہے اور نہ تمثیل . یہ ان مشمولات کی تمثال ہے جو بڑی حد تک شعور سے ماورا ہوتی ہیں .جولینڈ جیکوبی نے لکھا ہے کہ فرائیڈ چونکہ ذاتی لا شعور کا تصور پیش کرتا ہے اس لیے وہ جن چیزوں کو علامتیں کہتا ہے دراصل "نشانات" ہیں جبکہ زنگ اجتماعی لا شعور کے حوالے سے"حقیقی علامت" کی بات کرتا ہے. جانور تک اشاروں یا نشانات کا احساس رکھتے ہیں لیکن انسان طبعی حقائق کے علاوہ حقیقت کی ایک نئی جہت "علامتی حقیقت" کا احساس بھی رکھتا ہے اور اگر وہ جبلت کی حیوانی دنیا سے آٹھ کر تخلیقی سطح پر آنا چاہتا ہے تو اسے اس جہت سے رابطہ قائم کرنا پڑتا ہے. زنگ کے خیال میں علامت توانائی اور قوت کو منقلب کرنے کا آلہ بھی ہے. علامت کی"مسیحائی" اس اعتبار سے ہے کہ وہ کلیت حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے. علامات شعوری سطح پر نہیں بنتیں بلکہ خود بخود ابھرتی ہیں. تحلیل نفسی میں مذہبی اور صوفیانہ علامات کو کسری طریق کار اختیار کر کے کمتر بنا دیا جاتا تھا. زنگ ان علامات کو ان کی عظمت لوٹانے کی کوشش کرتا ہے.



    نوٹ:- " کارل گستاؤ ژنگ"اردو میں یونگ ،ژنگ ، ژونگ لکھا جاتا ہے --مگر ہم نے زنگ بھی لکھا ہے جسے ژنگ ہی پڑھا جاۓ ."ژنگ کے نفسیاتی نظریات" از سہیل احمد ،ادارہ تالیف و ترجمہ ،پنجاب یو نیورسٹی،لاہور پاکستان-- سے مندرجہ بالا تحریریں اخذ کی گئ ہیں.








    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ








    شاركه على جوجل بلس

    عن Unknown

      تعليقات بلوجر
      تعليقات فيسبوك

    0 comments:

    Post a Comment