جديدنا

شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب کی سوانح







    شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب  کی سوانح۔۔۔۔۔۔۔پیشکش: سید آصف جلال





    شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ ۱۲۶۸ھ مطابق ۱۸۵۱ء کو بریلی
    میں پیدا ہوئے، کیونکہ ان ایام میں آپ کے والد ماجد مولانا ذوالفقار علی
    صاحب بریلی میں مقیم تھے، وہ ایک جید عالم تھے۔ حضرت مولانا ذوالفقارعلی
    صاحب دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے ممبر بھی تھے، حضرت شیخ الہندؒ کا
    سلسلۂ نسب امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی ؓ سے جا ملتا ہے۔ آپ کی تعلیم کا
    آغاز چھ سال کی عمر میں ہوا۔ قرآن مجید کا کچھ حصہ اور فارسی کی ابتدائی
    کتابیں انہوں نے حضرت مولانا عبداللطیف سے پڑھیں ۔ابھی آپ قدوری اور شرح



    تہذیب وغیرہ پڑھ رہے تھے کہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب
    نانوتویؒ نے دیوبند میں۱۵؍ محرم ۱۲۸۳ھ کو دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی،
    اس مدرسہ کا آغاز دیوبند کی مشہور مسجد چھتہ سے ہوا، شیخ الہند مولانا
    محمود حسنؒ اس مدرسہ کے پہلے طالب علم تھے، ۱۲۸۴ھ میں آپؒ نے کنز الدقائق
    اور مختصر المعانی کا امتحان دیا ،آئندہ سال مشکوٰۃ اور ہدایہ پڑھیں اور
    ۱۲۸۶ھ میں کتب صحاح ستہ کی تکمیل کی اور فارغ التحصیل ہوئے۔


    ۱۹؍ ذوالقعدہ ۱۲۹۰ھ میں آپؒ کے سر پر دستار فضیلت باندھی گئی ۔حدیث میں
    انہیں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ
    کے علاوہ قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت مولانا شاہ
    عبدالغنی دہلویؒ سے بھی اجازت حاصل ہے۔ آپ جامعِ شریعت و طریقت تھے، حضرت
    گنگوہیؒ کے بقول آپ علم کا مخزن تھے، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
    آپ کو شیخ العالم کہتے تھے، مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ آپ کو شریعت و طریقت
    کا بادشاہ کہتے تھے اور مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ اور علامہ شبیر احمد
    عثمانی ؒ
    آپ کو علم شریعت اور طریقت کا بحر بیکراں کہتے تھے۔
    بہرحال آپ کو فارغ التحصیل ہونے سے پہلے ہی ۱۲۸۸ھ میں دارالعلوم دیوبند کا
    معاون مدرس بنا دیا گیا تھا، اس وقت آپ کے سپرد ابتدائی تعلیم پڑھانے کا
    کام کیا گیا تھا، لیکن رفتہ رفتہ آپ کی علمی استعداد اور ذہانت ظاہر ہونے
    لگی اور آپ اوپر کی کتابیں بھی پڑھانے کے مواقع ملتے گئے۔ ۱۲۹۳ھ میں آپ نے
    ترمذی شریف، مشکوٰۃ شریف اور ہدایہ وغیرہ کی تدریس شروع کی پھر ۱۲۹۵ھ میں
    مسلم شریف اور بخاری شریف بھی پڑھانے لگے، آپ کا حلقۂ درس نہایت مہذب اور
    شائستہ ہوتا تھا، دوسرے مدارس کے فارغ شدہ اور بڑے بڑے ذہین طالب علم نہایت
    مؤدب طریقہ سے حاضر خدمت رہتے اور آپ کمال عزت و وقار سے درس دیتے، حلقہ
    درس دیکھ کر سلف صالحین و اکابر محدثین کے حلقوں کا نقشہ نظروں میں پھر
    جاتا تھا، الحاصل آپ نے چالیس سال تک مسلسل دارالعلوم دیوبند میں درس حدیث
    دیا اور زمانہ اسیری مالٹا اور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں بھی درس دیا
    اس طرح آپ کا زمانہ تدریس چوالیس سال سے زائد ہوتا ہے، اس عرصہ میں اطراف و
    اکناف عالم میں آپ کے تلامذہ پھیل گئے، جن کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر
    گئی ہے، آپ کے ممتاز تلامذہ میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، حضرت علامہ
    محمد انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ ، حضرت مولانا سید
    حسین احمد مدنی ؒ ، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ ، حضرت مولانا
    اصغر حسین دیوبندیؒ ، حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ اور حضرت مولانا اعزاز
    علی دیوبندیؒ جیسے مشاہیر علم و فضل شامل ہیں۔

    آپ شروع ہی سے نیک طینت اور نیک فطرت تھے، اس کے ساتھ ساتھ حجۃ الاسلام
    حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی محبت اور صحبت اور امام الاولیاء حضرت
    مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی تو جہات نے آپ کو فرش سے اٹھا کر عرش پر
    پہنچادیا تھا، شیخ العرب و العجم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ
    نے آپ کے کمالات علمیہ و روحانیہ سے خوش ہوکر آپ کو دستار خلافت اور اجازت
    نامہ بیعت عنایت فرمایا تھا اور پھر دربار رشیدی سے بھی آپ کو یہ نعمت
    عظمیٰ حاصل ہوئی اور حاصل یہ کہ آپ شریعت، طریقت اور روحانیت کے مجمع
    البحرین ہی نہیں بلکہ مجمع البحار تھے، آپ اگرچہ اکثر اوقات تعلیم و تعلم
    اور تصنیف و تالیف اور مطالعہ کتب میں مصروف رہتے تھے لیکن اس کے باوجود ان
    کے اوراد و وظائف، ذکر و مراقبہ اور صلوٰۃ اللیل قضا نہیں ہوتے تھے، ہر
    حال میں، سفر و حضر میں، حتیٰ کہ مالٹا کی طوفانی برف باری میں بھی آپ کے
    معمولات میں فرق نہیں آیا تھا، آپ ہر جمعرات کو سبق پڑھا کر گنگوہ تشریف لے
    جاتے تھے اور جمعہ کی نماز پڑھ کر اپنے پیر و مرشد کی صحبت سے فیضیاب ہو
    کر دیوبند تشریف لاتے تھے:

    نہ کتابوں سے نہ مکتب سے نہ زر سے پیدا

    دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

    انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء میں شروع کی گئی تحریک آزادی کے مشن کو آپ نے کافی
    بڑھایا، آپ نے تحریک کا مرکز کابل کو بنایا اور آپ کی تحریک ریشمی رومال کے
    نام سے مشہور ہے، آپ بھی کئی دوسرے مسلم اکابرین کی طرح عسکری بنیادوں پر
    مسلمانوں کو منظم کر کے انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہتے تھے، لیکن اپنوں
    کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے انگریزوں کے خلاف یہ تحریک بظاہر تو
    کامیاب نہ ہوسکی لیکن اس نے ہندو پاک کے مسلمانوں میں بیداری کی نئی روح
    پھونک دی ۔






    دارلعلوم دیوبند



    اس سلسلے میں آپ نے ۱۳۳۳ھ میں حجاز مقدس کا سفر کیا ۱۳۳۴ھ تک وہاں رہے،
    ۱۳۳۵ھ کے آغاز میں آپ کو گرفتار کر کے مالٹا پہنچا دیا گیا، ۱۳۳۸ھ کو وہاں
    سے رہا ہوئے اور ہندوستان پہنچے ان دنوں ہندوستان میں تحریک خلافت کا زور
    تھا، آپ نے بڑھاپے، نقاہت اور بیماری کے باوجود تحریک میں بھرپور حصہ لیا،
    مالٹا کی اسیری کے دوران آپ زیادہ بیمار ہوگئے تھے، وطن واپسی پر بھی
    بیماری میں افاقہ نہ ہوا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے جدوجہد کا راستہ نہیں
    چھوڑا، آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ ۱۸۵۷ھ کی جنگ آزادی میں علماء حق کی جس
    انقلابی جماعت نے قائدانہ کردار ادا کیا تھا، اس کے امیر لشکر تھے سید
    الطائفہ حضرت مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ اور ان کے میمنہ اور
    میسرہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ
    تھے، جنہوں نے شاملی، مظفر نگر اور تھانہ بھون کے تاریخی محاذوں پر اپنے
    ہزاروں تلامذہ اور مریدوں کو لیکر انگریزوں کی فوج کو زبردست ہزیمت پہنچائی
    تھی، ان خونی معرکوں میں اس مقدس جماعت کے بہت سے مجاہدین نے جام شہادت
    نوش فرمایا اور انگریزوں کے مکمل غلبہ کے بعد ان میں سے بہت بڑی تعداد کو
    پھانسی کے پھندے یا حبس دوام کی سزائیں دی گئیں، قائد جماعت حضرت حاجی صاحب
    ؒ چھپتے چھپاتے حجاز مقدس کو ہجرت کر گئے، حضرت نانوتویؒ روپوش ہو کر
    مدرسوں کے جال پھیلانے میں لگ گئے اور انگریزوں کی سی آئی ڈی شب وروز ان کو
    تلاش کرتی رہی، حضرت گنگوہی ؒ چھ ماہ کی قید و بند کے بعد رہا ہو کر بظاہر
    اپنی خانقاہ میں گوشہ نشیں ہو گئے، مگر حقیقت میں وہ انتہائی خفیہ طور پر
    آزادئ وطن کے لئے اپنے متوسلین کو تربیت دینے میں لگ گئے۔

    علماء کرام اور بزرگان دین کی یہ تحریک بظاہر ناکام رہی مگر ان کی مخلصانہ
    قربانیوں کے مسلم معاشرے پر زبردست اثرات مرتب ہوئے، ان شہداء اور مجاہدین
    کے علمی، فکری اور روحانی خانوادے کے لاکھوں افراد کے سینے میں وطن کی
    آزادی اور اپنے بزرگوں کے انتقام کے لئے جوبے پناہ جذبات اور ولولے پل رہے
    تھے وہ کوئی معمولی سی چنگاری کی شکل میں نہیں تھے، بلکہ وہ زبردست آتش
    فشاں تھے، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ، حضرت نانوتوی ؒ اور حضرت
    گنگوہی ؒ کے ایسے منظور نظر شاگرد تھے جن کی شخصیت میں ان بزرگوں کو اپنے
    خوابوں کی تعبیر نظر آرہی تھی، اس لئے انہوں نے ان کی تعلیم و تربیت کچھ اس
    شان سے انجام دی کہ اپنے دل و دماغ کی ساری کیفیات اور پاکیزہ جذبات کو ان
    کے سینے میں پیوست کر دیا، ادھر حجاز مقدس سے ان کے روحانی مربی و مرشد
    اور اپنے عہد کے مستجاب الدعوات بزرگ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی ؒ
    بھی اپنی دعاؤں کے ساتھ ان کو اپنی قربانیوں کا مشن یاد دلاتے رہے۔

    اس طرح شیخ الہند کے لاشعور میں یہ بات رچ بس گئی تھی کہ اخلاص و للہیت اور
    ایثار و قربانی کے یہ ہمالیائی پیکر جن سے بہتر لوگ شاید اس وقت اس روئے
    زمین پر کہیں نہیں ہونگے انہوں نے اپنے وطن کی آزادی کے لئے اس شان کی
    قربانیاں دی ہیں کہ اپنی زندگی کی ساری متاع عزیز کو وطن کی نذر کر کے خود
    جلاوطنی یا روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں، ایسے بے لوث اور بے پناہ استادوں
    اور مربیوں کی تعلیم و تربیت اور فیض صحبت نے حضرت شیخ الہند کو لیلائے
    آزادی کا ایسا دیوانہ بنا دیا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی یہ
    بنا دیا تھا کہ ہر حال میں وطن کو فرنگی سے آزاد کروانا ہے، بلکہ سچ تو یہ
    ہے کہ ان کی زندگی کے حالات اور واقعات کا مطالعہ کرنے سے ایسا محسوس ہوتا
    ہے کہ اگر خالق حیات و ممات ان کو سوبار زندگی دیتا تو وہ ہربار اس کو
    آزادی وطن کی نذر کر دیتے اور پھر بھی ان کے دل میں یہ حسرت باقی رہ جاتی
    کہ:

    جان دی دی ہوئی اسی کی تھی

    حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

    حضرت شیخ الہند ؒ کے اساتذہ کا تعلق، علمی، فکری، تعلیمی اور اعتقادی حیثیت
    سے دبستان ولی اللّٰہی سے جڑا ہوا ہے، جس کی زریں تاریخ عظمت و عزیمت کی
    اعلیٰ ترین قدروں اور آزادی وطن کیلئے بے لوث قربانیوں کی خونچکاں داستانوں
    سے لالہ زار ہے، ۱۸۰۳ء سے ۱۸۵۷ء تک نصف صدی کی تاریخ اس مقدس دبستان کی
    عظمت و عزیمت، اولو العزمی، بلند ہمتی، روشن دماغی اور اعلیٰ حوصلگی، غیر
    متز لزل ایمان و یقین، ناقابل تسخیر ہمت و جرأت، عزم و ارادے کا استحکام،
    جہد و عمل کا استقلال، بے ریا اخلاص و للہیت، بے دریغ ایثار و قربانی، بے
    پناہ جانبازی و سرفروشی، اپنے دین، اپنی قوم، اپنی ملت اور اپنے وطن سے
    قابل رشک محبت کی ہزاروں داستانوں سے اس طرح مزین ہے، جیسے گلہائے رنگا رنگ
    کا کوئی حسین ترین گلدستہ ہو یا آسمان کی پیشانی پرکوئی چمکتی ہوئی کہکشاں
    ہو۔

    ۱۸۰۳ء میں برصغیر کے امام حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ محدث دہلوی اور پھر ان
    کے جلیل القدر صاحبزادے اور شاگرد امام حریت سیدنا حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب
    محدث دہلویؒ کا انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ، ۱۸۳۶ء میں ان کے شاگردوں
    سید احمد شہید بریلویؒ اور شاہ اسماعیل شہید دہلویؒ وغیرہم کا بالا کوٹ کے
    میدان میں جہاد اور شہادت پھر علماء صادق پور کا خونی جہاد، ۱۸۱۳ء سے ۱۸۵۷ء
    تک اس دبستان کے مقدس بزرگوں کی انگریزوں کے خلاف مسلسل بغاوت جو ۱۸۵۷ء
    میں لاکھوں انسانوں کی قربانی پر تمام ہوئی، جن میں صرف علماء کرام کی
    تعداد تقریباً باون ہزار بتلائی جاتی ہے، جہاد حریت وطن کے ایسے خونچکاں
    ماحول میں حضرت شیخ الہند ؒ نے جنم لیا اور جن ارباب عزیمت اساتذہ سے تعلیم
    و تربیت پائی وہ اسی دبستان ولی اللٰہی کے نمائندے تھے، جن کی حق گوئی و
    بے باکی، اخلاص و للہیت اور حب الوطنی ضرب المثل بن چکی تھی۔

    تاریخ عالم کی نگاہوں نے ایسے عزیمت کے مناظر کم ہی دیکھے ہوں گے کہ ایک
    مرد قلندر اور فقیر بے نوا اسباب و وسائل سے محروم ایک چھوٹے سے قصبے میں
    ایک دینی مدرسہ کی ٹوٹی ہوئی چٹائی اور پھٹے پرانے ٹاٹ پر بیٹھ کر مدرسہ کے
    چند غریب طلبا میں اس عزم و حوصلے اور جرات وولولے کا صور پھونک رہا ہے کہ
    اپنے وقت کی سب سے بڑی سپر پاور ’’گریٹ برطانیہ‘‘ کا مقابلہ کرنے اور اس
    کو شکست دینے کا جذبہ پیدا کر رہا ہے اور ان کو ذہنی طور پر تیار کر رہا ہے
    کہ آپ نے اس کے اقتدار کے سورج کو اپنے انہیں ناتواں ہاتھوں سے سمندر میں
    غرق کرنا ہے، حضرت شیخ الہندؒ کے ان ہزاروں بوریہ نشیں شاگردوں میں سے جن
    چند نے دریاؤں کے رخ کو موڑ کر ایک نیا انقلاب برپا کیا وہ ہیں شیخ الاسلام
    حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ ، بطل جلیل حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ
    ، مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ ، سحبان الہند حضرت
    مولانا احمد سعید دہلویؒ ، فخر المحدثین حضرت مولانا سید فخر الدین مراد
    آبادیؒ ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ ، حضرت مولانا حبیب الرحمن
    لدھیانویؒ وغیرہم۔

    حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے لائق تلامذہ کے تعاون سے اس وقت کے مسلم معاشرے کی
    ان عظیم شخصیات کے دل و دماغ میں بھی جہاد کی روح پھونک دی جو اپنے عہد
    میں مسلم سماج کے مکھن تھے اور جن کی قیادت میں اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کو
    اپنی آزادی کی جنگ جیتنا مقدر کردی تھی، ان ہزاروں مسلم مجاہدین میں سے
    جنہیں شیخ الہندؒ اور ان کے تلامذہ کی تربیت ملی تھی ان میں سے یہ چند نام
    بطور خاص قابل ذکر ہیں، مولانا عبدالباری لکھنویؒ ، حکیم محمد اجمل خانؒ ،
    ڈاکٹر مختار احمد انصاریؒ ، مولانا ابو الکلام آزادؒ ، مولانا محمد علی
    جوہرؒ ، مولانا شوکت علیؒ ، نواب وقار الملکؒ ، خان عبدالغفار خانؒ ،
    مولانا ظفر علی خانؒ ، مولانا فاخرالہ آبادیؒ وغیرہ ہم، ان کے علاوہ کافی
    تعداد میں غیر مسلم بھی آپ کی تحریک سے وابستہ تھے، جیسے جلاوطن آزاد ہند
    حکومت کے صدر راجہ مہندر پرتاب اور آزادی ہند کے رہنما گاندھی جی اور ان کے
    بہت سے ساتھی حضرت شیخ الہند کے تربیت یافتہ تھے۔

    حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے شاگردوں، مریدوں اور معتقدوں کو لے کر اپنے اسلاف
    کے نقش قدم پر مسلح بغاوت اور ایک خونریز انقلاب کی ہمہ گیر اسکیم تیار کی
    تھی جس کے لئے انہوں نے ۱۸۷۹ء سے سرگرم کوشش شروع کر دی تھی، لیکن انتہائی
    خفیہ اور بڑی خاموشی کے ساتھ تاکہ اس کی ہلکی سی بھنک بھی انگریزوں کو نہ
    لگ سکے ورنہ وہ دارالعلوم دیوبند کو بند کرادیں گے، جو اس وقت اسلام اور
    مسلمانوں کی حفاظت اور مجاہدین آزادی کی تربیت کا واحد مرکز تھا، لیکن
    ۱۹۱۶ء میں حضرت شیخ الہند نے یہ اعلان کر کے سارے لوگوں کو چونکا دیا کہ
    دارالعلوم دیوبند ۱۸۶۶ء میں قائم ہوا تھا، اب ۱۹۱۶ء شروع ہو چکا ہے، یعنی
    آج دارالعلوم دیوبند کے قیام کو پورے پچاس سال ہوگئے، ہمارے استاذ محترم
    حضرت نانوتویؒ نے اس کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے دعا فرمائی تھی کہ: ’’رب
    العالمین تحریک تحفظ اسلام کے اس نوزائیدہ مرکز کی صرف پچاس سال حفاظت فرما
    دے تو پھر یہ تحریک دنیا بھر میں اپنی جگہ آپ پیدا کر لے گی۔‘‘ اب اس کے
    قیام کو پچاس برس ہو چکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے استاذ مرحوم کی دعا سن لی اب
    مجھ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ دارالعلوم کے در و دیوار اب رہیں گے یا اس
    کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی، لیکن وطن کی آزادی جس کے لئے ہمارے اساتذہ
    نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں جو کہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو اور ان
    کی آنکھوں کا سب سے بڑا حسین خواب تھا، اب اس کی تعبیر تلاش کرنے کا وقت آ
    گیا ہے۔

    اب یہ ہماری سب سے اہم اور سب سے پہلی ذمہ داری ہے، جس کو اب بالکل مؤخر
    نہیں کیا جا سکتا اور پھر سب سے پہلے انہوں نے اپنے شاگردوں اور معتقدوں کی
    ایک ٹیم کو افغانستان روانہ کیا اس ہدایت کے ساتھ کہ وہاں جا کر ایک
    جلاوطن آزاد ہند حکومت قائم کریں، جس کے لئے افراد و اسباب اور وسائل و
    حالات حضرت شیخ الہندؒ خود تیار کر اچکے تھے، آزاد ہند حکومت کے روح رواں
    امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ ہم یہ سمجھ کر افغانستان
    گئے تھے کہ ہمیں برسوں اپنے مشن کیلئے ماحول بنانا پڑے گا لیکن حضرت شیخ
    الہند ؒ کی تقریباً چالیس سالہ کوششوں کا ثمرہ ہمارے سامنے تھا جو خود اپنے
    کچھ معتمد رفقاء کو لے کر حجاز مقدس روانہ ہو گئے تھے، جہاں خلافت عثمانیہ
    ترکی کے اہم ذمہ داران سے ملاقات کرکے ان کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش
    کرنا تھا کہ وہ ہندوستان پر حملہ کر دیں اور دوسری طرف سے افغانستان میں
    جو ہماری جلاوطن حکومت ہے وہ بھی افغانستان اور سرحد کے لوگوں کو لے کر
    ہندوستان پر حملہ کرے اور افغانستان کے راستہ سے بیرونی مدد اور سامان رسد
    بھی ترکی فوجوں کو پہنچائے اور اندرون ملک بھی بہت توسیع پیمانے پر اور بہت
    منظم نظام تیار تھا جو حملہ ہونے کی صورت میں انگریزی حکومت سے بغاوت اور
    اس کی فوجوں سے مزاحمت کرے اور حملہ آور فوجوں کی رسد، کمک، افراد اور ہر
    طرح سے معاونت کرے، اس طرح ہندوستان سے انگریزوں کو مار بھگایا جائے، حجاز
    مقدس میں ترکی کے تمام اہم ذمہ داروں سے حضرت شیخ الہند کی بات مکمل ہو گئی
    اور ان کے مجوزہ پلان پر عمل در آمد کیلئے خلافت عثمانیہ ترکی بالکل آمادہ
    ہو گئی، حضرت شیخ الہند نے ہندوستان اور افغانستان میں متعین اپنے
    انقلابیوں کے نام، بغاوت کی پوری اسکیم اور اس کے احکامات نیز خلافت
    عثمانیہ کے سب سے اہم ذمہ دار اور حجاز مقدس کے گورنر غالب پاشا کے وہ
    وثیقے جس میں انہوں نے حضرت شیخ الہند کی تائید و حمایت اور انہیں ہر طرح
    کے تعاون اور امداد دینے کیلئے خلافت عثمانیہ کے تمام ملازمین متعلقین اور
    ذمہ داروں کے نام اردو، عربی اور ترکی تینوں زبانوں میں لکھ کر دیا تھا۔

    ان تمام خطوط کو اپنے ایک معتمد شاگرد حضرت مولانا خلیل احمد صاحب
    سہارنپوریؒ کے ساتھ لکڑی کے ایک بکس کے دو تختوں کے بیچ میں رکھ کر اس طرح
    کیلوں سے جام کر دیا تھا کہ اس کا کسی کو احساس بھی نہ ہو، جن خطوط کو
    مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے ریشمی رومالوں پر نقل کر کے افغانستان، یاغستان،
    آزاد قبائل اور ہندوستان کے ان تمام علاقوں میں جہاں جہاں اس تحریک کے
    رہنما متعین تھے، ان کے پاس بھجوا دیئے تھے تاکہ ہر انقلابی اپنے تحریک کے
    احکامات اور مسائل سے باخبر رہے اور خود حضرت شیخ الہندؒ نے ترکی جانے کا
    پروگرام بنایا تھا، جہاں سے انہیں پوری بغاوت کی قیادت کرنا تھی، ابھی جہاز
    کی روانگی میں ایک دو دن کی تاخیرتھی، اس درمیان شریف مکہ نے انگریزوں سے
    مل کر خلافت عثمانیہ سے بغاوت کر دی اور حضرت شیخ الہند کو ان کے چار رفقاء
    کے ساتھ گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کر دیا، انگریزوں نے اپنی فوجی
    عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا اور پوری کوشش کی کہ ان کو اور ان کے رفقاء کو
    بغاوت کا مجرم ثابت کر کے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے مگر قدرت مدد
    گار تھی، حضرت شیخ الہند کی تحریک اس قدر خفیہ رہی کہ انگریزوں کو کوئی
    ثبوت فراہم نہیں ہو سکا، اس لئے ان لوگوں کو جزیرہ مالٹا میں قید کر دیا
    گیا۔

    حضرت شیخ الہندؒ کی صحت پہلے ہی سے خراب تھی اب کالا پانی کی اذیت ناک قید
    نے ان کی صحت کو بالکل تباہ کر دیا، تین سال اور سات ماہ کی اذیت ناک قید
    کے بعد ۱۹۲۰ء میں اس نحیف و کمزور بوڑھے مجاہد کو ان کے رفقاء کے ساتھ
    بمبئی لاکر آزاد کر دیا گیا، جہاں ہزاروں کی تعداد میں بمبئی کے مسلمانوں
    نے اپنے اس عظیم قائد کا استقبال کیا اور شیخ الہند زندہ باد کے فلک شگاف
    نعروں سے فضاء آسمانی گونج اٹھی۔

    خلافت کمیٹی بمبئی کے قائدین نے ایک شاندار استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا،
    جس میں خلافت کمیٹی بمبئی کے تقریباً تمام اہم ذمہ داروں نے شرکت کی،
    مسلمانوں کے اس اہم نمائندہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، حضرت شیخ الہندؒ نے
    جو باتیں ارشاد فرمائیں وہ بہت ہی خاص اور توجہ کے قابل ہیں، آپ نے فرمایا
    کہ: ’’استخلاص وطن کی جنگ اب تک مسلمان تنہا لڑ رہے تھے، تقریباً سوا سو
    برس سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی مسلمانوں خصوصاً
    علماء حق نے بیش بہا قربانیاں پیش کیں، تشدد، خونریزی اور بغاوت کے راستے
    اختیار کئے دیگر ممالک سے تعاون لے کر ہندوستان سے انگریزوں کو مار بھگانے
    کی اسکیمیں تیار کیں مگر افسوس کہ ہماری ہر کوشش ناکام رہی، اس لئے بہت غور
    و فکر کے بعد اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اب آزادی وطن کی جنگ میں
    اپنے برادران وطن کو بھی شریک کیا جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام
    مذاہب کا یکساں احترام کیا جائے، کسی کے مذہبی امور میں ہرگز مداخلت نہ کی
    جائے اور تشدد کی راہ چھوڑ کر عدم تشدد کا راستہ اپنایا جائے، فرنگی سے عدم
    تعاون اور ترک موالات کو بنیاد بنا کر آزادی کی جنگ شروع کی جائے، اب
    کامیابی کی یہی ایک صورت نظر آتی ہے۔‘‘

    ہندوستان کے علماء حق نے جو مسلسل سوا سو برسوں سے انگریزوں کے مقابل بر سر
    پیکار تھے اور اب تک آزادی وطن کے لئے پانچ راؤنڈ انتہائی خوفناک جنگیں لڑ
    چکے تھے، جن میں اپنی لاکھوں قیمتی جانوں کو ملک و ملت کی نذر کر چکے تھے،
    اب حضرت شیخ الہندؒ کے ان رہنماء اصولوں کی روشنی میں عدم تشدد، عدم
    تعاون، ترک موالات اور مذہبی اتحاد کو بنیاد بنا کر ۱۹۲۰ء میں آزادئ وطن کے
    لئے چھٹے اور فیصلہ کن راؤنڈ کا آغاز کیا۔

    حضرت شیخ الہندؒ ۱۹۲۰ء میں مالٹا کی قید سے رہا ہو کر ہندوستان تشریف لائے
    تو اس قدر نحیف و نزار ہو چکے تھے کہ اب ان میں چلنے پھرنے کی بھی سکت باقی
    نہیں رہی تھی، لیکن وہ اپنی جدوجہد سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں
    تھے، طلباء، علماء، مریدین و مجاہدین کی تعلیم و تربیت کے لئے جگر سوز
    جدوجہد کے علاوہ شب و روز کی جان گسل عبادت و ریاضت نے انہیں اس قدر نڈھال
    کر دیا تھا کہ وہ مالٹا سے واپسی کے بعد صرف پانچ ماہ کے اندر ہی اللہ
    تعالیٰ کو پیارے ہو گئے، صرف پانچ ماہ کی قلیل مدت میں اتنی شدید ترین
    علالت اور جسمانی نقاہت کے باوجود جبکہ آپ کا چراغ زندگی امراض و آزار کی
    تیز و تند آندھیوں سے اپنے بقا کی آخری جنگ لڑ رہا تھا، آپ نے کئی ایسے
    کارہائے نمایاں انجام دیئے، جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔

    ۱:... آپ نے ہندوستان کی آزادی کے لئے پورے ملک میں ہونے والی منتشر کوششوں کو بڑی خوبصورتی سے منظم و مربوط کر دیا۔

    ۲:... شکوک و شبہات اور مذہبی و علاقائی تعصبات کی آگ میں جھلستے ہوئے قومی اتحاد کو ایک نئی زندگی بخشی۔

    ۳:... اخوت و بھائی چارگی کے لئے ترستی ہوئی ہندوستانی فضا کو محبت کا
    ماحول فراہم کیا اور اس مبارک اتحاد کو حصول آزادی کے لئے سب سے کامیاب
    ہتھیار قرار دیا، اپنے وصال سے صرف ایک ہفتہ پیشتر ۱۹، ۲۰،۲۱؍نومبر ۱۹۲۰ء
    کو دہلی میں منعقدہ جمعیۃ علماء ہند کے دوسرے کل ہند عظیم الشان اجلاس عام
    کی صدارت فرماتے ہوئے اپنے خطبہ صدارت میں انہوں نے قومی اتحاد پر بے انتہا
    زور دیا اور اس مختصر سے عرصہ میں جو پیش رفت ہوئی تھی اس پر اظہار مسرت
    کرتے ہوئے ہندو، مسلم دونوں کو اس پر مبارک باد بھی دی اور ساتھ ہی بڑے
    موثر انداز میں اس بات کا احساس بھی دلایا کہ اس پیش رفت کے باوجود ابھی
    منزل بہت دور ہے اور ہمارا دشمن کسی بھی وقت اس کو برباد کر سکتا ہے، اس
    لئے اس کی طرف سے ذرا بھی غفلت نہیں ہونی چاہئے۔

    آپ اپنے خطبۂ صدارت میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ
    اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہم وطنوں کو اس پاک مقصد ،یعنی حصول آزادی میں آپ کا
    مؤید بنا دیا ہے اور میں ان دونوں کے اتحاد کو بہت مفید اور ضروری سمجھتا
    ہوں، حالات کی نزاکت کے تحت جو کوشش اس اتحاد کے سلسلے میں فریقین نے کی
    ہے، اس کی میرے دل میں بہت قدر ہے، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اگر صورت حال
    اس سے مختلف ہوگی تو وہ ہندوستان کی آزادی کو ناممکن بنا دے گی اور ظالم
    حکومت کا پنجہ روز بروز اپنی گرفت سخت کرتا رہے گا۔ اگر ہندوستان کی آبادی
    کے کل عناصر صلح و محبت سے رہیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ اور کوئی فوج چاہے
    وہ کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو اپنے ظلم و جبر سے اس کو شکست دے سکے، ہاں
    میں اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور پھر کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ صلح و آشتی
    کی فضاء کو خوشگوار رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس کی حدود کو خوب اچھی طرح ذہن
    نشین کر لیجئے، جس کی صورت اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ اپنے وطن کے کسی
    فریق کے مذہبی امور میں کوئی فریق مداخلت نہ کرے اور ہرگز کوئی ایسا طریقہ
    کار اختیار نہ کرے جس سے کسی مذہب کے ماننے والے کی دل آزاری ہو، مجھے
    افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب تک بہت سی جگہ اس کے خلاف ہوتا رہا ہے
    اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کے ماننے والے ایذا
    رسانی پر عمل کرتے رہے ہیں، میں اس وقت خاص طور پر قوموں کے سربراہوں سے
    مخاطب ہوں کہ وہ ریزولیشن اور تجاویز پاس کر کے یہ نہ سوچ لیں کہ اور تمام
    مرحلے طے ہو گئے، یہ طریقہ سطحی لوگوں کا ہے ،بلکہ انہیں عمل سے تمام ملک
    کی قوموں کے افراد کے درمیان اتحاد کی کوشش کرنی چاہئے، ایک دوسرے کو نقصان
    پہنچانے کی یہ کوششیں جو انگریزوں کی نظر میں دونوں کے اعتبار کو ساقط
    کرتی ہیں حصول آزادی کے حق میں سم قاتل ہیں، اس طریقے سے نہ صرف ملک کی
    تمام اقوام کا عظیم نقصان ہے بلکہ حصول آزادی کی راہیں بالکل مسدود ہو کر
    رہ جائیں گی، میں ایک بار پھر عرض کرتاہوں کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے
    درمیان صلح و آشتی نہایت ضروری ہے، مجھے امید ہے کہ آپ حضرات میرے اس
    مشورے کو صرف سرسری نہیں لیں گے بلکہ سوچ سمجھ کر دل کے خلوص سے ان باتوں
    کا عملی اقرار کریں گے۔‘‘

    ۴: ...ملی اتحاد کے لئے بھی آپ کی مساعی جلیلہ ناقابل فراموش ہیں، ملت
    اسلامیہ ہند جو اختلاف و انتشار کے بہت سارے خانوں میں بٹی ہوئی تھی اس میں
    ایک زبردست تقسیم قدیم و جدید تعلیم یافتہ طبقات میں تھی اور یہ دونوں
    طبقات ایک دوسرے سے اس قدر دور تھے کہ ان کے قریب ہونے کا تصور بھی محال
    تھا، قدیم تعلیم یافتہ طبقہ جدید تعلیم والوں کو مسلمان یا اسلام کا وفادار
    ماننے کو تیار نہیں تھا تو جدید تعلیم یافتہ طبقہ علماء قدیم کو عقل و
    انسانیت سے عاری اور زمانے کے نشیب و فراز سے بے بہرہ اور وحشی تصور کرتا
    تھا، حضرت شیخ الہندؒ نے دونوں کو بہت قریب کیا، ایک طرف جدید علوم والوں
    میں خدا پرستی اور دین داری کی روح پھونکی تو دوسری طرف انگریزی تعلیم کی
    اہمیت اور ضرورت کا احساس دلا کر علماء قدیم کی اس سے وحشت کو کافی کم کیا،
    اس لئے جہاں ان کے مریدوں اور معتقدوں میں علماء قدیم کا ایک جم غفیر
    دکھائی دیتا ہے وہیں ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم محمد اجمل خان، نواب
    وقار الملک، مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی اور سرحدی گاندھی خان
    عبدالغفار خان وغیرہ جیسے سینکڑوں جدید تعلیم یافتہ مسلمان بھی آپ کے گرد
    سمٹ کر آگئے تھے۔

    حضرت شیخ الہندؒ کی شہ پر کچھ شاگردوں اور مریدوں نے مولانا محمد علی جوہر
    کی قیادت میں ایک قومی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے قائم کرنے
    کا پروگرام بنایا تو اس کے افتتاح کے لئے اپنے مرشد و مربی حضرت شیخ الہندؒ
    کو دعوت دی، ان دنوں آپ کی طبیعت بہت خراب تھی، چنانچہ آپ کے تمام احباب
    نے آپ کو علیگڑھ نہ جانے کا مشورہ دیا لیکن آپ نے فرمایا کہ: ’’اگر میرے
    جانے سے انگریز کو تکلیف پہنچتی ہے تو میں ضرور جاؤں گا۔‘‘ چنانچہ آپ کو
    پالکی میں لٹا کر دارالعلوم دیوبند کے طلبا نے اٹھایا اور اس حال میں آپ نے
    دیوبند سے علیگڑھ کا سفر کیا، نقاہت کی وجہ سے آپ اپنی تحریر کردہ تقریر
    پڑھ نہیں سکتے تھے، اس لیے آپ نے حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کو حکم
    کیا، انہوں نے آپ کی وہ تقریر وہاں پر پڑھی، آپ نے اپنی صدارتی تقریر میں
    ارشاد فرمایا کہ:

    ’’اے نونہالان وطن! میں دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان کی آزادی جس کے غم میں
    میری ہڈیاں پگھلتی جارہی ہیں وہ تمہارے اتحاد کے بغیر ناممکن ہے، اس جدوجہد
    کو مدرسوں اور خانقاہوں کے علاوہ اسکولوں اور کالجوں میں بھی شروع کیا
    جائے گا تب ہی منزل مل سکے گی، اسی لئے میں نے اور میرے چند مخلص احباب نے
    ایک قدم علیگڑھ کی طرف بڑھایا ہے اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو اہم تاریخی
    مقامات دیوبند اور علیگڑھ کا رشتہ جوڑا ہے۔‘‘

    ۵:... ۱۹؍جولائی ۱۹۲۰ء کو خلافت کمیٹی بمبئی کے استفسار پر انگریزوں سے عدم
    تعاون اور ترک موالات کا فتویٰ دیا، جس سے انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں
    کا ذہن اس قدر بدلا کہ انگریزوں کی نوکری اور ان کے عطا کردہ وظائف و
    اعزازات اور القاب و خطابات کو لوگ عزت کے بجائے حقارت سے دیکھنے لگے، پھر
    ۱۹؍ اکتوبر۱۹۲۰ء کو دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کا ایک عظیم الشان اجلاس بلا
    کر انگریزوں سے مکمل عدم تعاون اور ترک موالات کی تجویز منظور کرائی اور
    اسی اجلاس میں ترک موالات کو ایک تحریک کی شکل دے کر اس کے رہنما اصولوں کی
    خود ہی نشاندہی فرمائی اور تقریباً چار سو مستند اور معتبر علماء اسلام کے
    دستخط سے ایک فتویٰ جاری کرایا، جس میں انگریزوں سے کسی بھی طرح کے تعاون
    کو مطلق حرام قرار دے دیا گیا۔

    اس فتویٰ پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی بھی ایک بڑی تعداد نے عمل
    کیا، ہزاروں ہندوستانی فوجیوں اور دیگر سرکاری ملازموں نے اپنی اپنی
    نوکریوں سے استعفیٰ دے دیا، جس سے جہاد آزادی وطن کی تحریک کو زبردست غذا
    ملی، آزادی وطن کی جدوجہد جو ابھی تک خفیہ اور بہت محدود دائرہ میں تھی،
    جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی اور انگریزوں سے نفرت ایک جنون کی
    شکل اختیار کر گئی، دراصل حضرت شیخ الہند کی تحریک ترک موالات اور عدم
    تعاون اتنی کارگر ثابت ہوئی کہ صرف ۲۶ سال کے قلیل عرصہ میں برطانوی اقتدار
    کے غرور نخوت کے سورج کو ہندوستان کے بوریہ نشین فقیروں نے بحرہند میں بڑی
    حقارت و ذلت کے ساتھ غرق کر دیا، حضرت شیخ الہندؒ اب اپنا مشن پورا کر چکے
    تھے، اپنی چالیس پچاس سال کی انتہائی خفیہ اور خاموش جہد مسلسل کے ذریعہ
    جہاد آزادی وطن کے لئے افراد و اسباب کے سلسلے کی ساری تیاریاں مکمل کر چکے
    تھے، اب ضرورت رہ گئی تھی صرف ایک ایسے تابوت کی جس میں رکھ کر برٹش
    امپائر کے جنازے کو غرقاب کیا جا سکے، سو اس کا بھی انتظام حضرت نے خود ہی
    کر دیا یعنی تحریک ترک موالات وعدم تعاون نے انگریز سرکار کے لئے تابوت کا
    کام کیا جس کو پورے ملک نے ہاتھ لگا کر سات سمندر پار پھینک دیا، وہ خوفناک
    عفریت جو ان کی ذلت و نکبت اور افلاس و غربت کا باعث بنا ہوا تھا، جو ان
    کے گلے میں غلامی کی زنجیر، ہاتھوں میں ظلم و تعدی کی ہتھکڑیاں اور پیروں
    میں بے کسی اور بے چارگی کی بیڑیاں ڈالے ہوئے تھا۔

    ۳۰؍ نومبر۱۹۲۰ء مطابق ۱۸؍ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ کو دہلی کے علاقے دریا گنج میں
    اپنے ایک معتقد معالج اور جہاد آزادی وطن کی ٹیم کے ایک بہت ہی سر کردہ
    رہنما مرحوم ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی کوٹھی میں علم و عمل، ایمان و
    یقین، عزم و حوصلہ، ہمت و شجاعت اور ایثار و قربانی کا یہ نیرتاباں ہمیشہ
    کے لئے روپوش ہو گیا لیکن اس کی ہزاروں کرنیں انسانیت کی تمام تر اعلیٰ
    اخلاقی اور عملی قدروں کا نور اکناف عالم میں بکھیر رہی ہیں۔

    میرے محترم دوستو! آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان میں اس وقت ہمارے
    اکابر علما ء کرام عدم تشدد کی جس پالیسی پر چل رہے ہیں، یہ پالیسی حضرت
    شیخ الہندؒ ہی کی پالیسی ہے، اگر آج ہم فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف سد
    سکندری بنے ہوئے ہیں تو یہ بھی حضرت شیخ الہند ؒ ہی کا سبق ہے، اگر تم
    چاہتے ہو کہ پاکستان کو انگریزوں کی روحانی اولاد سے نجات دلائی جائے تو اس
    کے لئے آپ کو وہی نسخہ استعمال کرنا پڑے گا جو خود حضرت شیخ الہندؒ نے
    انگریز کو بھگانے کے لئے استعمال کیا تھا۔آخر میں میں یہ بات بھی ضرور عرض
    کرنا چاہتا ہوں کہ دیوبندیت کسی نئے فرقے یا نئے مذہب کا نام نہیں، حقیقت
    میں دیوبندیت اللہ اور اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ
    احکامات کو حقیقی معنوں میں عوام الناس تک پہنچانے کا نام ہے، علم کا پہلا
    بین الاقوامی مرکز خاتم النبیین، سید المرسلین، رحمۃللعالمین، جناب محمد
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں قائم فرمایا تھا، جب مکے
    والوں نے قدر نہ کی تو یہ علمی مرکز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے ساتھ
    مدینہ منورہ منتقل ہو گیا اور پھر چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی المرتضیٰؓ نے
    اس علمی مرکز کو مدینہ منورہ سے کوفہ منتقل کیا، کافی عرصے تک یہ مرکز
    کوفہ میں رہا، لیکن آگے چل کر علم و حکمت کا یہ بین الاقوامی مرکز کوفہ سے
    دمشق، اور پھر دمشق سے بغداد اور اس کے بعد بغداد سے سمرقند اور بخارا کی
    طرف منتقل ہو گیا اور اس کے بعد سمرقند اور بخارا سے یہ مرکز دہلی منتقل ہو
    گیا اور جب دہلی پر زوال آیا تو یہ مرکز دیوبند منتقل ہو گیا اور الحمدللہ
    اب تک دیوبند سے علم و حکمت کی شعاعیں پورے عالم کو منور کر رہی ہیں، ہمیں
    چاہیے کہ ہم اپنے اکابر اور اسلاف کے نقش قدم پر چلیں اور پورے اطمینان کے
    ساتھ ان پر اعتماد کریں، نئے نئے نعروں اور نئے نئے فتنوں سے اپنے آپ کو
    بچاؤ، گاڑی کا ڈبہ چاہے کتنا ہی بیکار کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ انجن سے جڑا
    ہوا ہے تو وہ منزل تک ضرور پہنچے گا، جہاں انجن جائے گی وہاں وہ ڈبہ بھی
    ضرور جائے گا، اسی لئے فرمایا گیا کہ: ’’المرء مع من احب‘‘ یعنی جس کی جس
    کے ساتھ محبت ہوگی، قیامت میں وہ اسی کے ساتھ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے
    کہ اللہ پاک ہمیں اخلاص اور استقامت عطا فرمائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں
    اپنے بڑوں کا ادب اور احترام نصیب فرمائے۔ آمین۔




    مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو صاحب نے یہ مقالہ ڈسٹرکٹ کونسل ہال سکھر میں
    بتاریخ ۲۱؍جنوری ۲۰۱۲ء بمطابق ۲۶؍صفرالمظفر ۱۴۳۳ھ بروز ہفتہ جمعیت علماء
    اسلام ضلع سکھر کی طرف سے منعقد ہونے والے ’’شیخ الہند سیمینار‘‘ میں پیش
    کیا
    ۔۔۔۔











    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ









    شاركه على جوجل بلس

    عن Unknown

      تعليقات بلوجر
      تعليقات فيسبوك

    0 comments:

    Post a Comment