جديدنا

غازی علم دین شہید۔۔۔ عشق رسول ﷺ کا پیکر







    غازی علم دین شہید۔۔۔ عشق رسول ﷺ کا پیکر                         تحریر: عزیز ظفر آزاد
    تاریخ گواہ ہے جب جب کسی مردود نے پیامبر برحق حضرت محمد مصطفی ﷺکے خلاف
    زبان کھولی یاقلم اٹھایا تو شمع رسالت کے پروانے اس لعین کو کیفرکردار
    پہنچانے کےلئے بے چین و بے قرار ہوگئے ۔ دنیا کے کسی گوشے میں ایسا
    گستاخانہ عمل ہوا تو پوری امت مسلمہ سراپا احتجاج اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔
    برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی سرپرستی کے باعث متعصب ہندوﺅں نے متعدد بار
    ایسی جسارت کی مگر سرفروشان اسلام نے ہر


    مرتبہ ایسی حرکت کے مرتکب کو جہنم
    رسید کرنے میں دیر نہیں کی ۔ ایسے ہی جانبازوں اور سرفروشوں میں میرٹھ سے
    قاضی غازی عبدالرشید شہید ، صوبہ سندھ سے غازی عبدالقیوم شہید اور اولیائے
    حق کی سرزمین وداتاعلی ہجویری کی نگری سے غازی علم دین شہید ہماری تاریخ کے
    دمکتے ستارے ہیں جنہوں نے اپنی لہو کے نذرانے پیش کرکے چراغ رسالت کی
    ضوفشانی کا عظیم فریضہ ادا کیا ۔ 30اکتوبر 1929ءغازی علم دین شہید کو
    میانوالی جیل میں سزائے موت کے حکم کے تحت پھانسی پر لٹکا کر شہید کیا گیا ۔
    یہ واقعہ لاہور اور پنجاب کی تاریخ وہ درخشاں باب ہے جس پرہم سب فخر سے سر
    بلند ہوئے تو ہی ہیں اس کے ساتھ ہی شمع رسالت پر کٹ مرنے کا درس عام ہوتا
    ہے ۔


    1923ءمیں لاہور کے ایک ہندو پروفیسر چمو پتی نے ایک کتاب رقم کی
    جس میں حضوراکرم ﷺکی ذات بابرکات پر ناروا حملے کئے گئے ۔ اس کے چھپنے پر
    مسلمانان برصغیر میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔ ہر جانب بے چینی و
    اضطراب کی کیفیت طاری تھی ۔ ہندو مسلم فساد کا ماحول بنتا جا رہا تھا ۔
    کتاب کے پبلشر راجپال پر فرقہ وار منافرت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ چلا اور
    عدالت نے مجرم کو دو سال قید با مشقت اور ایک ہزار جرمانے کی سزا سنائی
    مگر پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر شادی لال ایک نہایت متعصب ہندو تھا اس
    نے راج پال کو بری کر دیا ۔اس فیصلے سے مسلمانان ہند میں بری طرح اشتعال و
    اصطراب نظرآنے لگا ۔ لہذا مسلمانوں کے ہر طبقہ فکر میں اس ملعون کو نابود
    کرنے کی کشمکش بڑھ گئی ۔ 17ستمبر 1927ءکو ایک جری جواں خدابخش نے راجپال پر
    حملہ کیا مگر وہ بال بال بچ گیا۔ 19اکتوبر ایک دوسرے جانباز عبدالعزیز نے
    راج پال کو واصل جہنم کرنے کی کوشش کی مگر ملعون پھر بچ نکلا ۔ بزرگ مسلم
    لیگی کارکن انجم ملک مرحوم بتایا کرتے تھے کہ اس دوران مسلم نوجوانوں کے دل
    و ذہن میں راجپال کا قتل عظیم ترین مشن سمجھا جا رہا تھا ایسی ہی کیفیات
    مسلم اشرافیہ قائدین اور علما میں برپا تھیں ۔ موچی دروازہ لاہور میں ایک
    احتجاجی جلسے سے بڑے بڑے مسلم زعما ءنے پرجوش خطاب کئے ۔ اس جلسہ میں امیر
    شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری نے بھی ایک ایمان افروز اور عشق رسول سے
    لبریز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک ہفتہ کے اندر کوئی نوجوان میرے نانا
    کے اس ملعون گستاخ کو ہلاک نہ کرپایا تو حرمت رسول ﷺکی قسم یہ بوڑھا سید
    زادہ خود اپنے ہاتھوں سے مقدس فریضہ سرانجام دیگا ۔ اس جلسہ کے ہزاروں
    لوگوں میں سریا والا بازار لاہور کا ایک نوجوان علم دین بھی موجود تھا ۔شاہ
    جی کی اس پر اثر تقریر نے اس کے دل و دماغ میں بارود بھر دیا لہذا اس نے
    دل ہی دل میں ٹھا ن لی کہ اس گستاخ رسول کا کام تمام کرکے رہوں گا ۔اپنی
    منصوبہ بندی کے تحت راجپال کی پبلی کیشنزانارکلی پہنچ کر لعین کو سرعام
    جہنم رسید کرکے مسلمانان ہند میں سرفراز و سر بلند مقام حاصل کرنے میں
    کامیاب ہوگیا ۔ پورے ہندوستان میں راجپال کے قتل کا تہلکہ مچ گیا اور علم
    دین کی بہادری و سرفروشی کا ڈھنکا بج گیا ۔ باقی تمام نوجوان ہاتھ ملتے رہ
    گئے ۔ علامہ اقبال بھی نہ رہ سکے برجستہ ان کے منہ سے جملہ نکلا " اسیں
    گلاں کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا " یعنی ہم باتوں سے آگے
    نہ بڑھ سکے اور ایک ترکھان لڑکا سرخرو ہوگیا ۔ غازی علم دین شہید گرفتار
    ہوئے۔ سیشن عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد سزائے موت کا حکم سنایا گیا جس کے
    خلاف عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی۔ غازی علم دین کی وکالت کے لئے حضرت
    قائداعظم کو بمبئی سے لاہور بلوایا گیا کیونکہ ایک ہائی کورٹ کا وکیل دوسری
    ہائی کورٹ میں پیش نہیں ہوسکتا تھا لہذا قائداعظم کو اجازت دینے سے جسٹس
    سر براڈ وے نے انکار کر دیا مگر چیف جسٹس شادی لال نے خصوصی اجازت نامہ
    جاری کیا ۔ قائداعظم کو لاہور بلانے میں دوسرے قائدین کے علاوہ سب سے زیادہ
    کردار علامہ اقبال کا تھا ۔15جولائی 1929ءکو سماعت کے دوران قائداعظم نے
    اپنے مخصوص انداز میں دلائل کے انبار کھڑے کردیے جس سے مقدمہ بے جان نظر
    آنے لگا ۔ قائد کے مدلل اور پر مغز وکالت کا اگلے دن اخبارات نے تذکرہ کیا
    مگر ججز نے نچلی عدالت کا فیصلہ بحال رکھا جو ناقابل فہم اور متنازعہ عمل
    تھا ۔ 18اکتوبر کو رحم کی اپیل مسترد ہوئی تو غازی علم دین شہید نے لاہور
    میں تدفین کی وصیت کی ۔31اکتوبر 1929ءکو شہر لاہور کے عظیم فرزند اور شمع
    رسالت کے غازی سپاہی شہادت کے منصب عظمی پر فائز ہوکر ہمیشہ ہمیش کے لئے
    زندہ و جاوید ہوگیا ۔ شہید کو میانوالی جیل صبح سات بجے تختہ دار پر لٹکایا
    ۔8بجے شہسوار کو اتا را اور 9بجے بغیر نما ز جنازہ کے دفن کر دیا ۔ اسی
    شام یہ خبر پورے ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ پوری امت مسلمہ
    ہیجان کی کیفیت سے دو چار تھی کہ شہید کو اس کی وصیت کے مطابق لاہور لایا
    جائے ۔ ہرجانب جلسے جلوس تھے ۔ مشاہیر لاہور میاں عبدالعزیز کے مکان پر جمع
    ہوئے اور گورنر پنجاب سے وفد کی صور ت میں ملنے کا فیصلہ کیا ۔ اسی روز
    برکت علی محمڈن ہال علامہ اقبال کی زیر صدارت جلسہ کا پروگرام بنا ۔ یکم
    نومبر کو علامہ اقبال کے گھر جلسہ منعقد تھا ۔2نومبر کو پروفیشنل مسلم لیگ
    کی کونسل کے اجلاس میں علامہ اقبال کی تحریک پر یہ قرار داد منظور ہوئی کہ
    علم الدین شہید کی لاش نہ دے کر حکومت نے بڑی غلطی کی ۔ حکومت اب بھی اس
    غلطی کی اصلاح کرکے مسلمانوں کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کر سکتی ہے ۔5نومبر کو
    مسلمانوں کا وفد علامہ اقبال ، سرمحمد شفیع اور ڈاکٹر خلیفہ شجاعت الدین پر
    مشتمل گورنر کو ملا ۔مسلمانوں کے جوش و بے چینی کو مد نظر رکھتے ہوئے شہید
    کی لاش لاہور لانے کا اہتمام کیا ۔ اس موقع پر مسلمانوں نے اپنے مطالبے
    میں جس کامل اتحاد کا ثبوت دیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا ۔اس کا سہرا مولانا
    ظفرعلی خان جیسے متحرک رہبر اور کارکنان علم دین کمیٹی کے سر ہے ۔ تاریخ
    گواہ ہے کہ برصغیر میں ہونے والے جنازہ میں عوام الناس کی اتنی بڑی تعداد
    میں شرکت بہت کم موقع پر نظر آئی، جتنی شہید کے جنازے میںتھی 14نومبر
    1929کو غازی علم دین شہید کی وصیت کے مطابق انہیں میانی صاحب لاہور میں دفن
    کیا گیا۔







    بذریعہ ای میل بلاگ پوسٹ








    شاركه على جوجل بلس

    عن Unknown

      تعليقات بلوجر
      تعليقات فيسبوك

    0 comments:

    Post a Comment