جديدنا

دینی مدارس کے خلاف مغربی سازشیں۔۔ ایک تحقیقی مقالہ





    ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیویارک
    میں ہونےوالےایک حادثہ نے،جس کےذمہ دارافراد کا تعین یقین کےساتھ آج تک
    نہیں کیا جا سکا،اچانک مغرب و مشرق میں سوچنےکےانداز،تصوراتی خاکے(images)
    اور اندرونی و بیرونی حکمت عملی پرغیرمعمولی گہرے اثرات ڈالےہیں۔ اسلام اور
    مسلمان جو تقریباً نصف صدی کےخاموش عمل کےنتیجےمیں یورپ و امریکہ میں ایک
    نمایاں تعمیری اور معتبر مقام حاصل کر چکےتھے، اچانک شبہ کی نگاہ
    سےدیکھےجانےلگے۔







    دوسری جانب مسلمانوں کا مغرب کےبارےمیں یہ تاثر کہ وہاں وسعت فکر،
    رواداری، برداشت، قبولیت، معروضیت (objectivity) اور صلاحیت کی بنیاد پر
    منصفانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے، عملی طور پر بےبنیاد ثابت ہونےلگا اور
    کسی فرد کا محض مسلمان ہونا اس کےمشتبہ اور ممکنہ دہشت گرد ہونےکےلیےکافی
    سمجھا جانےلگا۔ حتیٰ کہ خود مسلم ممالک میں جو شخص اپنی وضع قطع کےلحاظ
    سےقرآن و سنت سےقریب نظر آیا اسےاتنی ہی مشتبہ نگاہ سےدیکھا جانےلگا۔

    ایک
    دوسرےکےبارےمیں تصوراتی خاکے(images) کی اس تبدیلی کےنتیجہ میں بین الاقوامی
    سطح پر جو عدم اعتماد اور شک کی فضاء پیدا ہوئی ہےاگر اسےیوں ہی جاری
    رہنےدیا گیا تو یہ مزید بےشمار خطرات کےپیدا ہونےکا باعث بنےگا اور اگر
    حالات کی اصلاح خلوص نیت کےساتھ نہ کی گئی تو وہ ٹکراؤ، جس کی پیش گوئی
    سیموئیل ہنٹنگٹن نےکی تھی، اور جس کا آغاز دہشت گردی کےخلاف نام نہاد جنگ
    سےہو چکا ہے،مزید خطرناک صورت اختیار کر جائےگا۔


    اس صورت حال
    سےنمٹنےکےلیےمغرب نےایک حکمت عملی وضع کرنےکےبعد اس پر عمل بھی شروع کر دیا
    ہے۔ لیکن مقام افسوس ہےکہ مسلم دانشور اور ارباب حل و عقد (اگر وہ
    کہیں پائےجاتےہیں) اس جانب سےبڑی حد تک مستغنی نظر آتےہیں۔ مغرب کی حکمت
    عملی دیوار کی تحریر کی طرح واضح ہے۔ امریکی سینیٹ کی ’گیارہ ستمبر‘ پر
    مقرر کردہ کمیٹی نےاپنی ۲۸ سفارشات میں سے۲۶ سفارشات میں جس حکمت عملی کی طرف
    اشارہ کیا ہےاس کا محور تعلیمی اور ابلاغی ذرائع سےامت مسلمہ کےذہن،بلکہ
    روح کو تبدیل کرنا ہے۔ جو کام برطانوی سامراج کےہرکارےلارڈ میکالےنےسیکولر اور غلامانہ نظام تعلیم کےنفاذ سےبرصغیر میں حاصل کرنا چاہا تھا اور جس
    کےنتیجےمیں اس خطہ میں ایک پوری نسل ایسےتعلیم یافتہ افراد کی پیدا ہوئی جو
    شکل و صورت میں اپنےہم وطنوںکی طرح تھےلیکن اپنی فکر اور رہن سہن
    میں’’گورےصاحب‘‘ کا ایک چربہ تھے،بالکل اسی نہج پر ایک پُرامن ذہنی و
    روحانی انقلاب لانےکا منصوبہ امریکی فکری اور تحقیقی اداروںکی تجویز پر
    بنایا گیا ہے۔
    مناسب ہو گا کہ اس پس منظر میں تین ایسی دستاویزات کا ذکر
    کر دیا جائےجو اس دیدہ دلیرانہ منصوبہ کی تفصیلات فراہم کرتی ہیں۔ یہ
    مطبوعہ معلومات کسی بھی صاحب علم سےچھپی ہوئی نہیںہیںکہ انہیںکوئی خفیہ
    سازش کہہ کر ٹال دیا جائےبلکہ یہ مطبوعہ شکل میںاور آگہی و معلومات کی شکل
    میںانٹرنیٹ پر بھی پائی جاتی ہیں۔
    پہلی تحریر کا عنوان ہے: Civil Democratic Islam: Partners, Resources and Strategies جسےCheryl Benard
    نے،جو امریکی سفیر برائےافغانستان زلمےخلیل زاد کی اہلیہ بھی ہیں،امریکہ
    کےمشہور دانش خانے(Think Tank) RAND کےلیےتحریر کیا ہے۔


    دوسری دستاویز کا
    عنوان ہے: Changing Minds Winning Peace: A New Strategic Direction for U.S Public Deplomacy in the Arab and Muslim World اور اسےامریکی ایوان ِ
    نمائندگان کےلیےایک مشاورتی حلقےنےتیار کیا ہے،جس کےسربراہ Edward P. Dejerjian ہیں۔


    تیسری تحریر گو مختصر ہےلیکن اہم ہے،اسےبروکنگ انسٹی ٹیوٹ
    کےرکن  Stephen Philip Cohen نےتحریر کیا ہےاور اس کا عنوان The Nation and
    the State of Pakistan ہے۔ اسےThe Washington Quarterly نے،موسم گرما
    ۲۰۰۲ء کےشمارےمیں طبع کیا تھا۔ کوہن نےاپنےمقالہ میں حالات کےتجزیہ کےبعد
    امریکہ کو یہ مشورہ دیا ہےکہ انفرادی حیثیت میں فوجی حکمرانوں سےقریبی تعلقات
    سےآگےبڑھ کر اسےتعلیمی اداروںاور تعلیمی مواد پر توجہ دینی ہو گی (صفحہ
    ۱۲۱)
    ۔

    Changing Minds Winning Peace میں تفصیلی جائزہ کےبعد بین
    الاقوامی حکمت عملی کی تشکیل نو کےلیےتجاویز دی گئی ہیں۔ ان میںایک اہم
    تجویزیہ بھی ہےکہ تعلیم و تعلم سےوابستہ افراد،صحافیوںاور دیگر افراد کو
    امریکہ بلا کر مہمان داری اور علمی نشستوںکےذریعہ ان پر اثرانداز ہوا
    جائےاور امریکی اقدار و ثقافت کو تعلیم اور تعلیمی وظائف کےذریعہ
    مسلمانوںکےدل و دماغ میںاتار دیا جائے۔
    تینوں تحریرات میں وضاحت اور
    بےتکلفی کےساتھ مسلمانوںکو چاربڑےگروہوں: روایت پرست،بنیاد پرست،سیکولر اور
    جدیدیت پسند میں تقسیم کر کےان کےالگ الگ تصور اسلام کا تجزیہ کر کےجو حکمت
    عملی تجویز کی گئی ہےاس میں سیکولر افراد کی حمایت،انہیں وسائل فراہم
    کرنےاور انہیں بطور نجات دہندہ project کرنےکا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس میں بھی
    اس احتیاط کا تقاضا کیا گیا ہےکہ ہر فرد کی قدر وقیمت کےلحاظ سےاس کی حمایت
    کی جائےاور وسائل دیےجائیں۔ ساتھ ہی بعض روایت پرست گروہوں کو بھی اس غرض
    اور نیت کےساتھ حمایت فراہم کی جائےکہ وہ بنیاد پرستوںکا قلع قمع کر سکیں۔
    اس
    سلسلہ میں ایسےافراد کا پتہ لگانا اور انہیں جدید ذرائع کےاستعمال سےمدد
    دینےکا مشورہ بھی دیا گیا ہےتاکہ وہ زیادہ سےزیادہ افراد تک اسلام کی بےضر ر
    سی تعبیر،جس سےمغرب کو کوئی خطرہ نہ ہو،پہنچا سکیں۔ مثلاً Web کےذریعہ وہ
    اپنےخیالات سوالات و جوابات کی شکل میں دیں اور ایک جدید اسلام،جدید فقہ اور
    جدید فکر وجود میں آجائے۔
    ایک اہم مشورہ یہ دیا گیا ہےکہ جدیدیت پسند
    حضرات سےنصابی کتب لکھوائی جائیں اور ان کتب کو  اخراجات میں حصہ
    بٹاتےہوئےارزاں قیمت پر طلباء کو فراہم کیا جائے۔ جس طرح سابق سو ویت یونین
    نےساٹھ کےعشرےمیں کمیونسٹ فکر کو عالمی پیمانہ پر مختلف
    زبانوںمیں کتابوں،رسائل اور علمی کتب کی اشاعت ِ کثیر کےذریعہ اپنےمقاصد
    حاصل کرنےچاہےتھے،بالکل اسی طرز پر تجویز کیا گیا ہےکہ جدید اسلام کو جو
    مغرب کےلیےقابل قبول ہو،عوام الناس تک لےجایا جائے۔ اس ’’نیک کام‘‘
    میں تعلیمی اداروں اور تعلیمی مواد کو بنیادی اہمیت دی جائے۔
    پاکستان
    میں اس وقت جو لوگ اقتدار پر مسلط ہیں وہ اس پس منظر میں اپنےنام نہاد
    Enlightend Moderation کےدعوےکی بنا پر امریکی مفادات کےبہترین محافظوںکا
    کردار ادا کر سکتےہیں اور اسی بنا پر امریکہ کی حکمت عملی کو مختلف
    عنوانو ں سےپاکستان میں نافذ کرنےکی کوشش کی جا رہی ہے۔ ماڈل دینی مدارس کا
    تصور،مدارسِ دینیہ کےلیےایک مرکزی با اختیار ادارہ کا قیام،مدارس
    میں کمپیوٹر کےعلاوہ ایسےمضا مین کی تدریس جن سےدینی مدارس کےطلبہ طبعی اور
    سائنسی علوم سےآگاہ ہو سکیں اور اس طرح ان میں جدیدیت کا رجحان پیدا ہو
    سکے،جیسےاقدامات ان کوششوں کا حصہ ہیں۔ گویا شاہین بچوں کو
    ممولےبنانےکےلیےایسےماحول اور ایسی غذا سےان کی پرورش کی جائےکہ ان
    میں خواہش پرواز اور جرأت پرواز ختم ہو جائے۔ اس کےبعد اگر وہ پرواز کرنا
    چاہیں تو شوق سےکر لیں۔ ظاہر ہےپرکٹنےکےبعد ان کی پرواز وہیں تک ہو گی جہاںتک
    گرگس کا جہاں پایا جاتا ہےیا جس حد تک ان کا صیاد اجازت دیتا ہے۔
    ماضی
    میں برطانوی سامراج نےبالکل اسی حکمت عملی کو اختیار کر کےلادینی تعلیمی نظام کےذریعہ اپنےمفادات کا تحفظ کیا تھا اور برصغیر کےمسلمانوںکو ’’روشن
    خیال اور مہذب‘‘ بنانےکےلیےمغربی اقدار حیات کو اس خطہ میں متعارف کرایا
    تھا۔ تعلیم کےاس غیر محسوس طور پر ذہنوںکو تبدیل کرنےکےعمل پر اکبر الہ
    آبادی نےبہت صحیح کہا تھا:







    یوں قتل سےبچوں کےوہ بدنام نہ ہوتا






    افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی


    بظاہریہ معلوم ہوتا ہےکہ امریکہ سنجیدگی کےساتھ مسلم ممالک اور خصوصاً
    پاکستان کےحوالےسےایک جامع تعلیمی حکمت عملی کےذریعہ دانشوروں اور تعلیم
    یافتہ طبقہ کو اپنی فکر اور تہذیب کےرنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ اس غرض
    کےلیےایک شکل تو یہ ہو سکتی تھی کہ امریکہ پاکستان یا ایسےممالک
    سےجہاں احیائےاسلام کی تحریکات پائی جاتی ہیں،ایک اچھی تعداد میں نوجوانوں کو
    تعلیمی سہولیات فراہم کرتا اور یہ نوجوان امریکہ جا کر وہاں کےماحول میں گھل
    مل جاتےاور اگر اپنےملک واپس آبھی جاتےتو امریکہ کےسفراء کی حیثیت سے۔ لیکن
    اس میں ایک یہ خدشہ ضرور رہتا ہےکہ جو طلباء تعلیم کےبہانےامریکہ میں داخل
    ہوتے، وہ کسی لمحہ دہشت گرد یا ان کےآلہ کار بن سکتےتھے! جبکہ پاکستان یا
    دیگر ممالک میں امریکہ کی پسند کا نصاب تعلیم رائج کرنےکی شکل میں سانپ بھی
    مر جاتا ہےاور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔
    اس حوالےسےجو اصلاحات تجویز کی
    گئی ہیں ان میں اولاً ’روشن خیالی‘ پیدا کرنےکےلیےمدارس کےنصاب میں سائنسی
    مضامین کی تعلیم کو لازمی قرار دینےکی قرارداد ہے۔ دوسرا اہم قدم یہ تجویز
    کیا گیا ہےکہ دینی مدارس کےاساتذہ کی تربیت کی جائےتاکہ ان میں سے’’بنیاد
    پرستی‘‘ کو ختم کیا جائےاور وہ اپنےمدارس کو ’’جہاد کی فیکٹریاں‘‘ نہ
    بننےدیں۔ اس کےساتھ تیسرا کام مدارس کےلیےایسی جدید کتب کی تالیف و تصنیف
    ہےجو انہیں’’خطرناک‘‘ نہ بننےدیںاور صلح پسندی،امن اور خاکساری کی تربیت
    دیں۔
    انٹرنیشنل کرائسس گروپ نےاپنی خصوصی تحقیقی رپورٹ میں مدارس کی
    اصلاح اور شدت پسندی کےخاتمہ کےلیےجو تجاویز دی ہیں ان میں مندرجہ بالا امور
    کےساتھ مدارس کےمالی ذرائع و وسائل کی نگرانی،جانچ پڑتال اور ایسےمدارس کی
    سرپرستی اور انہیں مالی امداد فراہم کرنےکا مشورہ دیا گیا ہےجو امریکہ دشمنی
    کےمرتکب نہ ہوں اور یورپی اقوام کی حکمت عملی کی حمایت کرنےپر آمادہ ہوں۔
    یہ بھی تجویز کیا گیا ہےکہ حکومت پاکستان ایسےمدارس کو جہاں’’جہادی‘‘ ثقافت
    کےجراثیم پائےجاتےہوں،خلاف قانون قرار دےکر بند کر دے۔
    تکرار کےساتھ
    یہ بات بھی کہی جا رہی ہےکہ مدارس کم عمر نوجوانوں کو جذباتی طور پر ابھار
    کر ’’فدائیانِ اسلام‘‘ تیار کر رہےہیں جو نتائج سےبےپرواہ ہو کر ’’خودکش
    حملوں‘‘ کےارتکاب میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتے۔
    یہ انقلابی جدید ذرائع
    ابلاغ کےاستعمال سےبھی واقفیت رکھتےہیں حتیٰ کہ انٹرنیٹ کےذریعہ چندہ جمع
    کرنےاور پیغامات لےجانےمیں مہارت رکھتےہیں۔ ان کا کوئی ایک جغرافیائی وطن
    نہیں ہےبلکہ یہ دنیا کےکسی بھی خطےمیں جہاں ان کی قیادت انہیں حکم دےبلاجھجک
    چھلانگ لگا کر پہنچ جاتےہیں۔ اس لیےیہ ایک متحرک خطرہ ہیں اور مدارس ان کی
    اصل تربیت گاہیں ہیں۔
    پندرہ سوسالہ تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائےتو دینی
    مدارس کا اصل میدان مسلمانوں کی علمی و فکری قیادت نظر آتا ہے۔ یہی مدارس
    تھےجنہوں نےشبلی اور سید سلیمان ندوی جیسےمورخ وعالم،شاہ ولی اللہ
    جیسےفقیہ،شاہ عبدالحق جیسےمحدث اور انور شاہ کشمیری جیسےمتکلم پیدا کیے۔
    اس
    شک و شبہ اور مخالفت کےماحول میںمدارس کا مستقبل کیا ہے؟ کیا نصابی تبدیلی
    فی الواقع مدارس کےطلباء کو روشن خیال بنا دےگی؟ کیا سرکاری مدارس و
    جامعات،جہاں نہ کوئی شیخ الحدیث جہاد کی تعلیم دیتا ہو،نہ طلباء کو اسلحہ
    کےاستعمال کی تربیت دی جاتی ہو،ایسےافراد پیدا کرنےمیں کامیاب ہوں گےجو دین
    کی مغربی تعبیر و تفسیر کےماہر ہوں اور امریکہ نواز بھی ہوں یا امریکہ کی
    حالیہ خارجہ پالیسی اور اس کا مسلمانوں کےساتھ منفی اور تفریق کرنےوالا
    طرزعمل،ان طلباء کو بھی جو مدارس سےوابستہ نہیں رہے،امریکہ کی مخالفت پر
    آمادہ کر دےگا؟
    جہاںتک مدارس دینیہ کےردعمل کا تعلق ہے،انہیں تین اقسام
    میں بانٹا جا سکتا ہے۔ پہلےوہ مدارس جو امریکہ کےعزائم کا پورا علم
    رکھتےہیں اور جو مقامی مخیر افراد کےتعاون سےفروغِ دین و علم میں مصروف
    ہیں،ہم گمان کر سکتےہیں کہ وہ اپنےطرزعمل میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔
    وہ
    مدارس جو بیرونی مالی تعاون پر چل رہےتھےاور جن کا مسلکی تعلق بیرون
    پاکستان بعض معروف مکاتب فکر سےتھا وہ اس حکمت عملی سےمتاثر بھی ہوں گےاور
    انہیں اپنی سرگرمیوںکو محدود بھی کرنا ہو گا۔ ایک بہت قلیل تعداد ایسی بھی
    ہو گی جو اس موقع سےفائدہ اٹھاتےہوئےحکومتی امداد کا خیرمقدم کرےگی اور بعض
    معاملات میں حکومت کی پالیسی کی حمایت بھی کرےگی۔ ایسےمدارس ہر سیاسی دور
    میں اپنےموقف پر نظرثانی کرنےمیں کوئی تردد محسوس نہیں کرتے۔ نتیجتاً معاشرہ
    میں ان کا مقام وہ نہیں ہوتا جو کلمہ حق کےلیےقربانی دینےوالوںکا ہوتا ہے۔
    حکومت
    کےزیرسرپرستی جو ماڈل مدارس قائم کیےجائیں گےان کو مالی وسائل کی تو کوئی
    کمی نہ ہو گی لیکن انہیں اپنی غیرجانبدار حیثیت تسلیم کرانےمیںانہیں خاصا وقت
    لگےگا۔ اگر حسن اتفاق سےانہیں ایسےاساتذہ مل گئےجو علمی حیثیت سےاور اللہ
    سےاپنےتعلق میں مثالی ہیں،جب تو وہ مدارس کوئی مقام پیدا کریں گےورنہ جس طرح
    دیگر سرکاری ادارےجوں توں اپنا فرض پورا کرتےہیں یہ بھی طلباء کی ایک محدود
    تعداد کو اپنےخیال میں’’روشن خیال‘‘ بنانےمیں کامیاب ہو جائیں گے۔
    اگر
    اصل مسئلہ دہشت گردی کا خاتمہ ہےتو وہ مدارس کےنظام کو تباہ کرنےسےحل
    نہیں ہو گا۔ اس کےاسباب واضح ہیں: امت مسلمہ کےساتھ ظلم و استحصال کا
    رویہ،تحریکات آزادی کےکارکنوںکو اذیتیں دےکر شہید کرنا اور حق خودارادی کو
    پامال کرتےہوئےکشمیر،فلسطین،چیچنیا اور عراق میںامریکہ کی ریاستی دہشت گردی
    اور جارحیت کا اندھا دھند نفاذ۔ جب تک اس صورت حال کو تبدیل نہیں کیا
    جائےگا شدت پسندی میں اضافہ ہی ہو گا۔
    یہ بات پاکستان کےحکمران طبقہ کو
    سمجھ لینی چاہیےکہ اگر سرکاری تعلیمی اداروں کےنصاب سےدینی عنصر کو خارج کیا
    گیا اور اس کی جگہ لادینی تصورات کو متعارف کرایا گیا تو اس طرح جو فکری
    اور اخلاقی خلاء پیدا ہو گا وہ لازماً معاشرہ میں شدت پسندی میں اضافہ کا
    باعث بنےگا۔ اسی طرح اگر دینی مدارس کےنصاب میں جہاد،امربالمعروف،اور
    اعلائےکلمۃالحق سےمتعلق قرآنی آیات و احادیث کو خارج کر بھی دیا جائےتو
    مسئلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ قرآن و سنت سےامت مسلمہ کا تعلق صرف دینی مدارس
    کےطلبہ کی حد تک نہیں ہے۔ اس عظیم کتاب کا کم ازکم ایک نسخہ ہر گھر میں پایا
    جاتا ہےاور اگر اس کتاب ہدایت کو اس کےصحیح مفہوم و مدعا کےساتھ سرکاری،غیر
    سرکاری اداروں میں نہ پڑھایا گیا تو نیم عالم حضرات جس طرح چاہیں گےعوام
    الناس کو اس کی آیات کےحوالےسےاپنےمقاصد کےلیےاستعمال کرتےرہیں گے۔ اس
    لیےقرآن کریم کی تمام تعلیمات بشمول جہاد اور اعلائےکلمۃالحق و دعوت و
    نصیحت کی تدریس ہی مسئلہ کا حل کر سکتی ہے۔
    یہ ایک نہ قابل تردید حقیقت
    ہےکہ عربوں کےقبائلی عناد،دشمنی اور عصبیت جاہلیہ کا علاج اگر کوئی نسخہ کر
    سکا تو وہ صرف قرآن و سنت کی تعلیمات ہی تھیں۔ آج بھی امت مسلمہ کا تعلق
    قرآن سےجتنا قریب ہو گا اس میں اخوت،محبت ،تعاون،امن اور صلح کی صفات اسی
    قدر زیادہ پیدا ہوں گی۔
    ملکی مفاد اور سلامتی کےنفاذ کا تقاضا ہےکہ نہ
    صرف دینی مدارس بلکہ سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروںمیں بھی لازمی قرآنی
    تعلیم کو متعارف کیا جائےتاکہ لادینیت،عصبیت اور جاہل قومیت کی جگہ ہم ایک
    بامقصد،باوقار اور متوازن و عادل معاشرہ کی تعمیر کر سکیں۔ یہی بانی
    پاکستان قائداعظم کا تصورِ پاکستان تھا اور اسی مقصد کےلیےعلامہ اقبال
    نےاپنی فکر اور شعر کےایک ایک لفظ کو استعمال کیا تھا۔
    تحریر: خالد رحمٰن ۔ (تحقیق کار: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد)


    شاركه على جوجل بلس

    عن Unknown

      تعليقات بلوجر
      تعليقات فيسبوك

    0 comments:

    Post a Comment