جديدنا

اسلام میں ریاست کی ضرورت







    الدین أس والسلطان حارس، فما لا أس لہ فمھدوم، ومالا حارس لہ فضائع 0

    ’’دین اسلام ایک بنیاد یعنی عمارت ہے اور حکومت اس کی چوکیدار ہے، جس
    عمارت کی کوئی بنیاد نہ ہو وہ گرجاتی ہے اور جس عمارت کا کوئی چوکیدار نہ
    ہو وہ ضائع ہوجاتی ہے۔‘‘
    بعض اس کو فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
    کہتے ہیں اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ قول سیدنا عثمان غنیؓ کا ہے۔ لیکن
    بہرحال حدیث کی کتابوں میں آیا ہے۔ گویا امت مسلمہ ایک عمارت ہے اس عمارت
    کی بنیاد شریعت اور دین کی تعلیمات پر ہے۔ سلطان اور حکومت اس کے نگہبان
    اور محافظ ہیں۔



    یہ بات کہ ریاست کا قیام امت مسلمہ کے تحفظ کے لیے
    ضروری ہے، پہلے دن سے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصوبے میں شامل
    تھے۔ یہ بات میں اس لیے عرض کررہا ہوں کہ بعض مغربی مصنفین نے یہ لکھا ہے
    اور ان کی دیکھا دیکھی بہت سے مسلمانوں نے بھی یہ بات کہنی شروع کردی ہے۔
    حالانکہ یہ بات جسارت اور گستاخی کی معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ شائد کافرانہ قسم
    کی بات ہے۔ ایک مستشرق ڈبلیو ایم منٹگمری واٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ بڑا
    ہمدرد اسلام ہے۔ یہ ایک انگریز تھا اور چند سال پہلے فوت ہوگیا تھا۔ سیرت
    اس کا موضوع تھا اور اس نے سیرت پر کئی کتابیں لکھیں۔ اس کی دو کتابیں
    ’’محمد ایٹ مکہ‘‘ اور دوسری ’’محمد ایٹ مدینہ‘‘ بہت مشہور ہیں۔ اسلام کے
    ان ہمدرد صاحب ڈبلیو ایم منٹگمری واٹ نے ان کتابوں میں جو بات اپنے قارئین
    کو ذہن نشین کرانا چاہی ہے، وہ یہ ہے کہ مکہ میں اسلام کچھ اور تھا اور
    مدینے میں اسلام کچھ اور مکہ میں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو صرف
    اخلاق سکھانا چاہتے تھے۔ اچھا انسان بنانا چاہتے تھے اور دین ابراہیمیؑ کے
    مطابق ان کے عقائد تھے اور عرب کے لوگوں کو وہ اسی کے مطابق تعلیم دینا
    چاہتے تھے۔ لیکن جب اقتدار ملا اور مدینے میں انہیں قوت حاصل ہوگئی تو آپ
    صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور کے اصول اور معیارات چھوڑدیے، حکومت اور
    اقتدار کے راستے پر چل پڑے۔ ایک بڑی ریاست بنادی۔ یہ اس کی دونوں کتابوں کا
    خلاصہ ہے۔ یہ بات بعض مسلمانوں نے بھی لکھی ہے۔ جبکہ یہ بات شواہد اور
    واقعات کے اعتبار سے بالکل غلط ہے بلکہ اسلامی عقیدے کے لحاظ سے کفر ہے۔




    قرآن مجید کی مکی دور کی، بے شمار آیات میں بتایا گیا ہے کہ عمل صالح
    اور ایمان کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اقتدار کے شرف اور ذمے داری سے نوازتا
    ہے۔ مکہ مکرمہ میں نازل شدہ متعدد سورتوں اور آیات میں خلافت کا ذکر ہے۔
    ہجرت سے قبل جو آیات نازل ہوئیں ان میں فرمایا گیا کہ:

    وَٱجۡعَل لِّى مِن لَّدُنكَ سُلۡطَـٰنً۬ا نَّصِيرً۬ا (سورہ نبی اسرائیل:۸۰)
    ’’(اے میرے رب!) اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مدد گار بنادے‘‘۔


    ماضی میں جتنے انبیاء علیہم السلام گذرے ہیں جن میں سے کئی ایک کا تذکرہ
    قرآن مجید میں آیا ہے۔ ان میں سے متعدد کو اللہ تعالیٰ نے حکومت سے
    نوازا، ان کی پوری تفصیلات سے مکی دور کی سورتیں بھری ہوئی ہیں۔ ان کے بارے
    میں قرآن مجید نے سورہ انعام میں ہدایت دی کہ ان کی پیروی کرو۔ تو اگر
    انبیاء ؑ کی پیروی کرنی ہے تو ان میں سیدنا یوسفؑ بھی ہیں۔ سیدنا دائود
    وسلیمانؑ، سیدنا موسیؑ اور سیدنا یوشعؑ، یہ سب وہ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے
    اقتدار اور اختیار سے نوازا، لہذا اقتدار اور اختیار کی ضرورت اور مسلم
    معاشرے کے لیے اس کا لازمی ہونا، مکی سورتوں میں جگہ جگہ، کہیں کنایتاً اور
    کہیں اشارۃً موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ابتدائی دور میں
    اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے، جس کی تفصیلات سیرت ابن ہشام اور سیرت واحادیث
    کی بیشتر کتب میں موجود ہیں تو آپؑ قبائل عرب کے مختلف اجتماعات میں
    تشریف لے جایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں جس چیز کی دعوت دے رہا
    ہوں اس کو اگر آپ لوگ قبول کرلیں گے تو اللہ تعالیٰ عرب وعجم کے خزانے آپ
    پر کھول دے گا۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا فرمائی۔ جب آپ
    صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے پاس کفار گئے اور ان سے کہا کہ اگر
    آپ اپنے بھتیجے کو اس نئے دین کی دعوت سے باز رکھیں تو جو آپ کہیں گے ہم
    وہ سب شرائط تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے علاوہ اور دوسری بھی بہت سی
    پیش کشیں کیں۔ اس کے جواب میں آپؐ نے اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا: اے
    چچا! ارید منھم کلمۃ، میں ان سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ یہ ایک کلمہ مان لیں
    تو عرب ان کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے اور عجم ان کے آگے جھک جائیں گے۔
    گویا کہ کلمہ طیبہ کے بیج میں جہاں گیری وجہاں بانی کے یہ ثمرات پہلے دن سے
    موجود تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتاً فوقتاً اس کا اظہار
    بھی فرمایا۔ غالباً دوسری بیعت عقبہ کے موقع پر جب مدینہ منورہ کے صحابہ
    کرامؓ سے یہ بات طے ہوگئی کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے
    صحابہ ہجرت کرکے مکہ مکرمہ سے مدینہ چلے جائیں گے تو ایک انصاری صحابی نے
    انصاریوں سے پوچھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ کس چیز پر بیعت کررہے ہو؟ اس بیعت
    کے نتیجے میں پورے عرب اور عجم سے تمہارا اختلاف ہوجائے گا۔ کیا تم اس کے
    لیے تیار ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم تیار ہیں۔ گویا بیعت کرنے والے
    جانتے تھے کہ کس کام کے لیے بیعت کررہے ہیں اور بیعت کرنے والوں کو بھی
    پہلے دن سے معلوم تھا کہ کس کام کے لیے بیعت لی جارہی ہے۔ ایسی بات نہیں
    تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے حالات دیکھ کر ارادہ
    تبدیل کردیا اور اقتدار کے راستے پر چل پڑے بلکہ یہ اسلام اور امت دونوں کے
    تحفظ کے لیے ضروری تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو
    جس کردار کے لیے تیار فرمایا تھا اس کردار کو ادا کرنے کے لیے یہ ساری قوت
    اور وسائل ناگزیر تھے۔ غزوہ خندق کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
    ایک چٹان پر کدال مارا تو فرمایا کہ مجھے قیصروکسریٰ کے محلات نظر آئے
    ہیں۔ اس طرح کے اشارات آپؐ مختلف صحابہ کرامؓ سے وقتاً فوقتاً فرماتے رہتے
    تھے جس کا مقصد صحابہ کرامؓ کو ان ذمے داریوں کے لیے ذہنی طورپر تیار کرنا
    تھا جنہیں ان کو آگے چل کر انجام دینا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر مدینہ منورہ
    کے ابتدائی دور کی بات ہے کہ ایک جنگ میں حاتم طائی کی بیٹی قید ہوکر آئی
    تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر کہ یہ حاتم طائی کی بیٹی ہے اسے
    فوراً رہا کردیا جب وہ مسلمانوں کی قید سے باعزت طورپر رہا ہوکر امن
    وسلامتی کے ساتھ اپنے گھر لوٹ گئیں تو ان کے بھائی عدی بن حاتمؓ شکریہ ادا
    کرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چونکہ وہ ایک
    سخی باپ کے بیٹے تھے جس کی دریا دلی ضرب المثل ہے لہذا ان میں اس کا اثر
    بھی ہوگا۔ اس موقع پر بہت سی باتیں ہوئیں۔ آپؐ نے ان سے اس موقع پر فرمایا
    جس کا مفہوم ہے کہ اے عدی! عن قریب زمانہ آنے والا ہے کہ ایک نوجوان
    خاتون سونے کے ہمراہ تن تنہا سفر کرے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف
    نہیں ہوگا یعنی اقامت دین اور اسلامی نظام کے نفاذ کی برکت سے راستہ ایسا
    پرامن ہوگا۔
    آج کی یہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور ہماری ذلت
    ورسوائی کی اصل وجہ اغیار کی غلامی ہے۔ بلکہ اغیار کے غلاموں کی غلامی، جس
    سے نجات صرف ایک اللہ واحدہ لاشریک لہ کی وفاداری وغلامی میں مضمر ہے۔
    وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

    ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

    تحریر: امیر احمد


    ماخذ: روزنامہ جسارت کراچی


    شاركه على جوجل بلس

    عن Unknown

      تعليقات بلوجر
      تعليقات فيسبوك

    0 comments:

    Post a Comment