جديدنا

فزکس سے میٹافزکس تک




     انیسویں صدی میں مادی
    علوم  کے ارتقا  کے زیر اثر سائنسدانوں  نے مادہ کے علاوہ ماوراء الادراک
    شے کے وجود کا انکار کیا اور کائنات کی تخلیق کو خود بخود عمل اور محض ایک
    اتفاقی حادثہ قرار دیا۔  اس دور میں   بعض  دانشوروں نے یہ نتیجہ اخذ 
    کرلیا کہ سائنس  انسان کے تمام اہم معاملات سے  نمٹنے کے لیے کافی ہےلیکن
    اب بیسویں صدی میں جدید طبیعات نےثابت کردیا ہے کہ یہ تمام دعوے یکسر غلط
    اور مہمل تھے۔ اب علمائے طبیعات بڑے انکسار کے ساتھ کہہ رہے ہیں سائنس ہمیں
    صداقت کا صرف جزوی علم دیتی ہے۔ طبیعات


    اصل حقیقت بتانے سے قاصر ہے
    ۔قلندربابا اولیاءؒ کےمطابق الہامی  تعلیمات کو نہ ماننے والے ہمیشہ اپنے
    قیاس پر چلتےرہے،  ان کے قیاس نے ان کی غلط رہنمائی بھی کی ان کے نظریات
    کہیں کہیں دوسرے نظریات سے متصادم ہوتے رہتے ہیں، قیاس کا پیش کردہ کوئی
    نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ضرور ساتھ دیتا ہے مگر پھر ناکام ہوجاتا
    ہے۔ توحیدی نقطہ نظر کے علاوہ نوعِ انسانی کو ایک ہی طرزِفکر پر مجتمع کرنے
    کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔







    اکیسویں  صدی  سائنس  کی نئی رفعتوں کا دور
    ہے۔  جدھر نظر اٹھائیے سائنس ہی کارفرمانظر آتی ہے۔ آسمان کی بیکراں
    بلندیوں، سمندر کی عمیق پہنائیوں اور زمین کی بے پایاں وسعتوں پر اس کا
    قبضہ ہے۔  سائنس اس دور کی عظیم ترین طاقت بن چکی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے
    کہ ساری کائنات اس کے دائرے میں سمٹ آئی ہے۔ راکٹ، آبدوز، برقی ریل نیز
    ٹیلیفون، ریڈیو، ٹیلی ویژن، راڈار اور کمپیوٹر جیسی ایجادات ہمارے تحیر اور
    درماندگی میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ، میزائل اور ایٹمی توانائی جیسے نام ہم
    پر خوف و      لرزہ   طاری کر رہے ہیں ۔  جدھر نظر اٹھائیے سائنس اپنے
    طلسماتی مظاہر کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔  یہ سارے کارنامے  سائنس کی ایک شاخ 
    فزکس یعنی علم طبیعات سے متعلق ہیں۔  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طبیعات
    ہمارےذہن کے تخیلات چھین چھین کر عالم آب و گل میں مجسم کر رہی ہے۔ قدیم 
    انسان کے ذہنی تخیلات اڑن کھٹولا، جام جم وغیرہ راکٹ اور ٹیلی ویژن کی شکل
    میں مجسم ہو کر ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ اب برقی دماغ یعنی کمپیوٹر گھنٹوں کے
    مشکل حسابی عمل کو چند ثانیوں میں مکمل  کرسکتا ہے۔ ترجمہ کرسکتا ہے، آپ
    کے سوالات کے جوابات دے سکتا ہے اور حدیہ کہ فریق مخالف کی حیثیت سے آپ کے
    ساتھ شطرنج کھیل سکتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طبیعات افسانوی ذہن کو
    شکست دینے کے در پے ہے اور شاید سائنس کا آئندہ دور ہمارے کئی  بڑے بڑے 
    تخیلات کو حقیقت کا روپ دے چکا ہوگا!….


    طبیعات کا مقصد اُن قوانینِ قدرت کی دریافت
    ہے جن پر یہ عظیم الشان کائنات قائم ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے طبیعات
    کائنات کو مادہ اور توانائی کی اصطلاحوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ 
    علمِ طبیعات کی رو سے کائنات کی تشکیل کل ایک سو چھ  عناصر سے ہوئی ہے۔
    مادہ کے عنصر کا سب سے چھوٹا ذرّہ تکوین ‘‘جوہر’’ (Atom) کہلاتا ہے۔ یہ ایک
    ٹھوس جسم پر مشتمل ہوتا ہے جس کے اندر دو ذرّات پروٹان اور نیوٹران مختلف
    مقداروں میں واقع ہوتے ہیں۔ اس ٹھوس جسم کو ‘‘مرکزہ’’ (Nucleus) کہتے ہیں۔
    مرکزہ کے گرد بہت ہی ہلکے اور منفی برق کے حامل ذرّات  جنہیں برقیے
    (Electron) کہا جاتا ہے، ہوش بار رفتاروں سے گردش کرتے ہیں۔ ایک طرف یہ
    عالم اصغر (Microcosm) ہے جس کے اندر جھانکنے کی طبیعات مسلسل کوشش کر رہی
    ہے تو دوسری طرف یہ عالم اکبر (Macrocosm) ہے جس میں کروڑوں کہکشائیں ہیں۔
    خود ہماری کہکشاں میں 40 کھرب ستاروں میں سے بعض ستارے سورج سے کئی گنا بڑے
    اور کئی لاکھ گنا زیادہ روشن ہیں۔ بعض ستارے ہم سے اتنی دور واقع ہیں کہ
    آج تک ان کی روشنی ہم تک نہیں پہنچ پائی ہے۔ واضح رہے کہ روشنی کی رفتار
    تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے اور روشنی کا ایک سال میں طے کردہ فاصلہ
    ‘‘نوری سال’’ (Light Year) کہلاتا ہے۔ہماری کہکشاں کا قطر ایک لاکھ نوری
    سال ہے اور اس کا بعید ترین ستارہ ہم سے دس کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع
    ہے۔ کائنات میں ایسی کروڑوں کہکشائیں موجود ہیں۔


    اللہ اکبر! کتنی بیکراں ہے یہ کائنات!


    انسانی ادراک سے ماوراء….!


    کلاسیکی طبیعات کی بنیاد نیوٹن کے قوانین
    صرعت پر رکھی گئی ہے۔ جس میں عالم اکبر (Macrocosm) یعنی مادی کائنات کی
    ٹھیک تصویر پیش کی تھی۔ چنانچہ یہ بات واضح ہوگئی کہ عالم اصغر (Microcosm)
    یعنی جوہروں کی دنیا کائنات سے یکسر مختلف اصولوں کی پابند ہے۔ جوہر کی
    دنیا کے اکتشافات جوہری طبیعات یا ‘‘جدید طبیعات’’کا روپ دھار کر مستقل علم
    کی شکل میں نمودار ہوئے۔  جدید طبیعات کا اصل موضوع کائنات صغریٰ ہے۔
    نظریۂ.اضافیت (Theory Of Relativity) اور نظریۂ مقادیر…. (Quantum
    Theory) نے اس علم کے خدوخال واضح کرنے میں نمایاں طور سے حصہ لیا ہے۔ آئن
    اسٹائن اور مارکس پلانک کے ان نظریات نے  انسانی فکر کے زاویے تبدیل کردیے
    ہیں اور کائنات کے بارے میں انسان کے سوچنے کا انداز بدل ڈالا ہے۔


    سترہویں صدی میں کلاسیکی طبیعات کے پیش رو
    گلیلیو اور نیوٹن کے انکشاف کے بعد علت و معلول (Cause And Effect) کے
    قانون کو کائنات کے بنیادی رہنما اصول کی حیثیت سے منظور کیا گیا اور اسے
    اس صدی کا عظیم کارنامہ سمجھا گیا۔حلم ہولٹز (Helmholtz) نے اعلان کیا کہ
    ‘‘علم طبیعات کا آخری مقصد یہ ہے کہ وہ علم میکانیکیت (Mechanics)  میں
    مبدل ہوجائے ۔ ‘‘لارڈ کیلون جو ایک انجینئر تھا اس نے اقرار کیا کہ وہ کسی
    ایسی چیز کا تصور بھی نہیں کرسکتا جس کا میکانیکی نقشہ اپنے ذہن میں نہ لے
    آئے۔ فلسفیوں میں ڈیکارٹس، ہابس، اسپائنوزا، لائیبنز اور لاک خدا کی ہستی
    کے قائل ضرور تھے لیکن ان کا طرز فکر نیچریت(Naturalism) کی جانب مائل تھا۔
    انہوں نے کائنات اور اس کے آثار کی توجہ میکانیکی انداز پر کرنے کا آغاز
    کیا۔ گلیلیو، کوپرنیکس، کپلر اور نیوٹن بھی خدا کے وجود کےمنکر نہیں تھے
    لیکن ان کے طریق جستجو میں مذہب اور اس کی اساس قطعاً شامل نہیں تھی۔


    اٹھارہویں صدی میں سائنس اس میکا نیکی نقطۂ
    نظر کی تائید کرتی نظر آتی ہے جو ساری مادی کائنات کو مشین سمجھتا ہے۔  
    اس صدی میں سائنسی طرز فکر  نے مکمل طور پر مادیت.پرست کا روپ دھارلیا ا ور
    ان لوگوں کی نظر میں  خدا کی حیثیت محض ایک دستوری فرمانبردار کی رہ گئی۔
    ایک ایسی ہستی جو کائنات کو محض ایک مرتبہ  صرعت میں لانے کے بعد لا تعلق
    ہو گئی ہے۔ اب  سارا نظام بندھے ٹکے اصولوں کے تحت خود بخود چل رہا ہے۔
    روسو، والیٹر، ڈیوڈ بارٹلی، جوزف پر لیٹلے اور ہولباغ جیسے مفکرین اسی کے
    قائل تھے اور عالم طبعی سے ماوراء کسی شے کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے
    تیار نہیں تھے۔  وہ محض ان اشیاء کے وجودکو  تسلیم کرتے تھے جن کی  صفات
    کا،  مشاہدہ اور تجربہ سے ادراک کیا جاسکے۔ ہیوم کے فلسفۂ تشکیک
    (Skepticism)  نے اس نظریہ پر آخری مہرثبتکردی۔


    انیسویں صدی میں نیچریت کی تحریک اپنے
    نقطۂ.عروج کو پہنچ گئی۔ سائنس نے کائنات کی میکانیکی تشریح کے ساتھ بڑے
    اعتماد سے اعلان کر رکھا تھا کہ فطرت صرف ایک ہی راستہ پر چل سکتی ہے جو
    علت و معلول کے سلسلے کی کڑیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ جان مل، اسپنسر، کومت اور
    مولشات نے مادہ کے علاوہ ماوراء الادراک شے کے وجود کا انکار کیا اور
    کائنات کی تخلیق کو خود بخود عمل اور محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دیا۔ ڈارون
    کےنظریہ ارتقاء  )  نے مادیت کو مستقل بنیادیں فراہم کی ٹنڈل (Tyndall) نے
    خطبۂ بلفاسٹ میں اعلان کیا ‘‘سائنس تنہا انسان کے تمام اہم معاملات
    نمٹانے کے لیے کافی ہے۔’’  اس کی وجہ سے روحانیت یا فوق الطبیعت پر اعتقاد
    کفر کا درجہ رکھتا تھا۔ طبیعات کے زمانۂ عروج میں جرمن فلسفی کانٹ نے کہا
    تھا کہ ‘‘مجھے مادہ مہیا کردو میں تم کو بتا دوں گا کہ دنیا اس مادہ سے کس
    طرح بنائی جاسکتی ہے….’’ ہیکل نے بڑے دعویٰ سے کہا تھا کہ پانی، کیمیا  
    ئی  اجزاء اور وقت ملے تو وہ ایک انسان تخلیق کرسکتا ہے. لاپلاس نے طبیعات
    کی ہمہ گیریت اور جامعیت پر یوں مہر لگائی تھی کہ ‘‘اگر مجھے ہر ذرہ کی
    رفتار اور مقام معلوم ہو تو میں دنیا کے مستقبل کی پیشن گوئی کرسکتا ہوں۔’’


    لیکن اب بیسویں صدی میں جدید طبیعات نےثابت
    کردیا ہے کہ یہ تمام دعوے یکسر غلط اور مہمل تھے۔ اب علمائے طبیعات بڑے
    انکسار کے ساتھ کہہ رہے ہیں ‘‘سائنس ہمیں صداقت کا صرف جزوی علم دیتی ہے۔’’
    روشنی کی حقیقت تک طبیعات داں آج تک نہیں پہنچ سکے۔ ماہرین طبیعات کے
    نزدیک روشنی کبھی ذراتی خصوصیات کا مظاہرہ کرتی ہے اور کبھی موجی خصوصیات
    کا….  واضح رہے کہ ذرہ اور موج دو متضاد  تصورات ہیں۔ طبیعات نور کی اصل
    حقیقت بتانے سے قاصر ہے ۔ مظاہر فطرت کی تشریح کے لیے نور اور برق کو مادی
    (Mechanical) ثابت کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ سر آرتھر ایڈنگٹن
    لکھتے ہیں ‘‘جمالیاتی، اخلاقی اور روحانی پہلوؤں سے قطع نظر کمیت، مادہ،
    جوہر، زماںومکاں وغیرہ جو خالص طبیعات کے دائرہ کی چیزیں سمجھی جاتی ہیں ان
    کی کیفیت کو جاننا بھی ہمارے لیے ویسا ہی مشکل ہوگیا ہے جیسے غیر مادی
    اشیاء کی حقیقت کو جاننا۔ موجودہ طبیعات اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ ان
    چیزوں  سے براہ راست واقف ہوسکے۔ ان کی حقیقت ادراکسےباہر ہے۔’’


    طبعی کائنات کا ذرہ تکوین یعنی جو ہر عناصر
    کا اتنا چھوٹا ذرہ ہے کہ آج تک اسے نہیں دیکھا جاسکا۔ طبیعات ایک ان دیکھے
    وجود کی محض اس کے آثار و شواہد کی روشنی میں نہ صرف قائل ہے بلکہ اپنے علم
    جدید کی عمارت کی بنیاد اس تصور پر رکھ رہی ہے اور یہ بھی ایک سائنسی
    حقیقت ہے کہ ہم جوہر کے طبعی وجود کے متعلق کچھ نہیں جانتے.  ہم صرف اس کے
    ریاضیاتی ڈھانچہ سے واقف ہیں۔ جدید طبیعات نے ہم پر منکشف کر دیا ہے کہ
    ریاضیاتی ڈھانچہ ہی وہ واحد علم ہے جو طبعی سائنس ہمیں دےسکتی ہے۔ نظریہ
    ٔاضافیت نے طبیعات کے بنیادی تصورات کمیت، قوت، سکون، صرعت اور زماں و مکاں
    کو اضافی قرار دیا ہے چنانچہ کائنات سے متعلق ہمارا سارا سائنسی علم
    اضافی  ہے۔ نظریۂ اضافیت کی رو سے ہم مشاہد (Observer) کو مشاہدہ 
    (Observation) سے الگ نہیں کرسکتے۔ یعنی ہم کسی چیز کے محض خارجی مظاہر کو
    دیکھ سکتے ہیں اس کی اصل حقیقت کا مشاہدہ نہیں کرسکتے۔


    نظریۂ  کو انٹم نے اس حقیقت کا انکشاف کیا
    ہے کہ ہم پوری کائنات تو درکنار ایک ذرے تک کا مستقبل بتانے سے قاصر ہیں۔
    ہم ایک ذرّے کا یا تو صرف مقام بتا سکتے ہیں یا صرف رفتار۔ بیک وقت دونوں
    کا ٹھیک علم ناممکن ہے، کیونکہ فطرت اس کی اجازت نہیں دیتی۔


    کلاسیکی طبیعات نے بڑے وثوق سے دعویٰ کیا
    تھا کہ فطرت صرف ایک ہی راستہ اختیار کرسکتی ہے جو سبب (Cause) اور نتیجے
    (Effect) کی مسلسل کڑیوں کے مطابق آغاز سے انجام تک متعین ہوتا ہے۔ پس
    کائنات ایک ایسی مشین کی مانند ہے جسے ایک مرتبہ چابی دے کر صرعت میں لایا
    گیا ہے اور وہ سبب اور نتیجے کے متعین راستوں کے تحت اپنے انجام کی طرف
    گامزن ہے۔  ان  لوگوں کے  مطابق ۔۔پس اگر خدا کا وجود ہے بھی تو ہمارا اس
    سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔


    یہی وجہ ہے کہ قدیم سائنس اصرار کرتی تھی کہ
    اگر خدا کو ماننا ہی ہے تو ‘‘سبب اوّل’’ (First Cause) کے طور پر مان لو 
    .ور نہ آج کائنات کو خدا کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پلانک کے نظریہ
    ٔمقادیر کے مطابق فطرت چھلانگوں کے ذریعے صرعت کرتی ہے۔ اس نقطۂ نظر سے
    کائنات ایک خود کار  (Automatic) مشین نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسی مشین ہے
    جسے ہر آن چلایا جا رہا ہے۔ کائنات صرعت اوّل ہی کے لیے کسی محرک کی محتاج
    نہیں تھی بلکہ وہ ہر آن حرکت دیے جانے کی محتاج ہے۔ کائنات کی بقاء دراصل
    ایک حیّ و قیوم ہستی کے مسلسل فیضان کی بدولت ہے۔


    موجودہ سائنٹفک فلاسفہ نے طبعی سائنس کے
    مادیت پر انحصار کو ایک ایسی غلطی سے تعبیر کرنا شروع


    آئن اسٹائن  کے خصوصی نظریۂ اضافیت کے
    نتیجے میں مادے کی صفت کمیت فنا ہوچکی ہے،  اس نظریے کے مطابق روشنی بھی
    تجاذبی میدان سے اسی طرح متاثر ہوتی ہے جیسے مادہ اس لیے اس کا بھی وزن
    ہونا چاہیے! توانائی اور مادے کی ثنویت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مادہ کو
    ثبات نہیں یہ فانی ہے۔ یہ نہ صرف اپنی حالت بدلتا ہے بلکہ اپنی خصوصیت ختم
    کرکے فنا بھی ہوتا رہتا ہے۔


    آج  طبیعات میں مادہ محض لہروں کا مجموعہ بن
    کر رہ گیا ہے۔ جدید طبیعات نے کائنات کی مادی تشریح کو قبول کرنے سے انکار
    کردیا ہے۔ ہیئتی طبیعات کے ماہر سرآتھر ایڈنگٹن جدید سائنس کےمطالعہ سے یہ
    نتیجہ نکالتے ہیں کہ ‘‘کائنات کا مادہ ایک شے ذہنی ہے۔’’ ریاضیاتی طبیعات
    داں سر جیمز جنیز لکھتے ہیں کہ ‘‘کائنات  مادی کائنات نہیں، بلکہ تصوراتی
    کائنات ہے…. یہ ایک بڑی مشین کی بجائے  ایک بہت بڑے خیال سے زیادہ مشابہ
    معلوم ہوتی ہے اور یہ کہ ‘‘کائنات ایک منصوبہ ساز حکمران کی شہادت دے رہی
    ہے۔’’ کلاسیکی طبیعات کے پیش رو سرآئزک نیوٹن کی رائے ہے کہ ‘‘کائنات ایک
    منصوبہ ساز واجب الوجود کے ارادے کے سوا اور کسی شے سے ظاہر نہیں ہوسکتیں،
    وہ واجب الوجود ہر جگہ اور ہمیشہموجود ہے۔’’


    جدید طبیعات کے معمار اعظم پروفیسرالبرٹ آئن
    اسٹائن کا وجدان کہتا ہے کہ ‘‘کائنات پر ایک زبردست دماغ حکومت کر رہا
    ہے۔’’ چنانچہ اب کفر و الحار و سائنسی حقیقت کے طور پر اپنا وجود برقرار
    نہیں رکھ سکتے۔ کائنات کی مادی تعبیر پر مبنی نظام حیات کو جدید طبیعات کی
    رو سے ‘‘سائنٹفک’’ نہیں کہا جاسکتا۔ آج جدید سائنسی دنیا میں مذہبی عارف
    بھی ایک حقیقت کے طور پر زندہ رہ سکتا ہے۔ فکر و نظر کا یہ بہت بڑا انقلاب
    ہے جسے جدید طبیعات نے سائنسی دنیا میں برپا کیا ہے۔


    اس موضوع پر وحی کی روشنی سے منور فکر ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے…..؟


    آئیے سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیا  کی تحریروں میں تلاش کرتے ہیں ۔


    قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:


    ‘‘انبیاء کی تعلیمات کو نہ ماننے والے فرقے
    توحید کو ہمیشہ اپنے قیاس میں تلاش کرتے رہے، چنانچہ ان کے قیاس نے ان کی
    غلط رہنمائی کرکے ان کے سامنے غیر توحیدی نظریات رکھے ہیں اور یہ نظریات
    کہیں کہیں دوسرے فرقوں کے غلط نظریات سے متصادم ہوتے رہتے ہیں، قیاس کا پیش
    کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ضرور ساتھ دیتا ہے مگر پھر
    ناکام ہوجاتا ہے۔ توحیدی نقطہ نظر کے علاوہ نوعِ انسانی کو ایک ہی طرزِفکر
    پر مجتمع کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ لوگوں نے بزعمِ خود جتنے طریقے
    وضع کیے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی مرحلہ میں غلط ثابت ہو کر رہ گئے ہیں۔
    توحید کے علاوہ آج تک جتنے نظام  ہائے حکمت بنائے گئے وہ تمام یا تو اپنے
    ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جارہے ہیں۔ موجودہ دور میں
    تقریباً تمام پرانے نظام ہائے فکر یا تو فنا ہوچکے ہیں یا ردو بدل کے ساتھ
    اور نئے ناموں کا لباس پہن کر فنا کے راستے پر سرگرم سفر ہیں۔ اگرچہ ان کے
    ماننے والے ہزار  کوششیں کر رہے ہیں کہ تمام نوع انسانی کے لیے روشنی بن
    سکیں۔ لیکن ان کی ساری کوششیں ناکام ہوتی جاری ہیں۔


    آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ
    مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہوں گی۔
    نتیجہ نوع انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطۂ توحید کی طرف لوٹنا پڑ گیا تو
    بجز  اس نقطہ کے نوعِ انسانی کسی ایک مرکز پر بھی جمع نہیں ہوسکے گی۔
    موجودہ دور کے مفکر کو چاہیے کہ وہ وحی کی طرز فکر کو سمجھے اور نوعِ
    انسانی کی غلط رہنمائی سے دست کش ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف
    قوموں کے جسمانی وظیفے جداگانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام نوعِ
    انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہوسکے۔ اب صرف روحانی وظائف باقی رہتے ہیں۔ جن
    کا مخذن توحید اور صرف توحید ہے۔ اگر دنیا کے مفکرین جدوجہد کرکے ان وظائف
    کی غلط تعبیروں کو درست کرسکے تو وہ اقوام عالم کو وظیفۂ روحانی کے ایک ہی
    دائرہ میں اکٹھا کرسکتے ہیں اور وہ روحانی دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ
    توحید ہے۔ اس معاملہ میں تعصّبات کو بالائے طاق رکھنا پڑے گا کیونکہ مستقبل
    کے خوفناک تصادم، چاہے وہ معاشی ہوں یا نظریاتی، نوعِ انسانی کو مجبور
    کردیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت دے کر اپنی بقا تلاش کرے اور بقا کے ذرائع 
    قرآنی توحید کے سوا کسی نظامِ حکمت سے نہیں مل سکتے۔’’
    ماخذ: روحانی ڈائجسٹ


    تحریر: ابنِ وصی



    شاركه على جوجل بلس

    عن Unknown

      تعليقات بلوجر
      تعليقات فيسبوك

    0 comments:

    Post a Comment