جديدنا

تعلیمی نظام کی کامیابی کا راز؟




دنیا کی ترقی میں پہیہ کی ایجاد کاکلیدی کردار ہے۔ اگر یہ منظر
عام پر نہ آتا تو مہینوں کا سفر آج بھی مہینوں


میں ہی طے ہوتا اور مشینوں
کی دن رات برپا رہنے والی گھن گرج سے کان نا آشنا ہی ہوتے، لیکن اللہ
تعالیٰ کی حکمت کہ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے عقل سے نوازا کہ
اسے بروئے کار لائے اور ایسے ایسے کام کرے کہ لوگوں کی زندگی سہولیات سے
مزین ہو جائے۔







اگر اردگرد نظر دوڑایں تو یہی عقل جس کی مدد سے نت نئی ایجادات ہوئیں
دنگ رہ جاتی ہے اور ایک کی عقل کے کرشمات سمجھنے اور ان میں مذید بہتری
لانے کیلئے کئی کئی سال تعلیم و تربیت کی گھاٹ کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ پہیہ
بھی چکر ہی کاٹے تو آگے بڑھتا ہے ورنہ وہیں کا وہیں اور کھڑا بھی نہیں رہ
سکتا کہ گرنا مقدر ہو جاتا ہے۔ ذرا غور کریں ہر کام کی ایک ابتدا ہے اور
ایک انتہا، اگر بغیر کسی منصوبہ بندی کے ابتدا کریں تو انتہا تک کا راستہ
اتنا کٹھن ہو سکتا ہے کہ دانتوں پسینا بھی آئے اورکچھ ہاتھ بھی نہ آئے۔


تعلیم اور صحت دو ایسی بنیادی ضرورتیں اور حقوق ہیں کہ جس قوم نے بھی اس
کی بندر بانٹ کے بجائے سب کے حقوق کا خیال رکھا، اس نے ترقی کی منازل برق
رفتاری سے طے کیں۔ یوں تو صحت کا تعلق ہماری روزمرہ کی سرگرمیوں سے ہے، اگر
وقت پر کھانا اور سونا جاگنا ہو تو صحت قدرے بہتر رہتی ہے، لیکن دوسری
ضرورت جو معاشرتی حیوان کو انسان کا درجہ دیتی ہے اور جس کیلئے قرآن وحدیث
میں بھی تاکید ہے اس میں ٹوٹکوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ تعلیم بہتر طور پر
میسر آ جائے تو تربیت بھی ساتھ ساتھ اور نتائج بھی کہ دل باغ باغ ہو جائے
لیکن اگر ڈہنگ ٹپائو پالیسی اختیار کی جائے تو تعلیم زنگ سے آلود لوہے سے
بھی کمزور اور تربیت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اچھی تعلیم و تربیت کسی
بھی شخص کو انسانیت کی معراج سے ہم کنار کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر
دانشور‘ڈکٹیٹر‘ سماجی رہنما‘ سیاستدان‘ بیورو کریٹ غرض جسے بھی اظہار خیال
کا موقع ملے، تعلیم کی اہمیت بیان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
حتی کہ وہ لوگ جو تعلیم سے محروم تاہم معاشی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکل گئے
وہ بھی اپنی اس کمی کا دکھ بھرے الفاظ میں ذکر کرتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کی
کڑیاں آپس میں سرکل کی طرح ملی ہوتی ہیں، جن کے اجزاء میں سے اگر کوئی ایک
بھی ہلکا پڑ جائے تو منزل کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس سرکل کے پانچ
اجزاء طالبعلم‘ نصاب‘ استاد‘ اسکول اور والدین ہیں۔


تعلیم کا سرکل طالب علم سے شروع ہوتا ہے، بچے کی پیدائش سے ہی اس کے
ڈاکٹر و انجینئر بننے کے والدین خواب دیکھنے لگتے ہیں، دو اڑھائی سال کی
عمر میں جب کہ بچہ ابھی صحیح طور پر الفاظ کی ادائیگی بھی نہیں کر رہا ہوتا
اس کیلئے کتابیں آ جاتی ہیں۔ تین سال کی عمر میں اسکول داخل کرا دیا جاتا
ہے۔ صبح ساڑھے چھ سات بجے رکشائوں اور ویگنوں میں ٹھنسے معصوم پھول اسکول
پہنچتے ہیں اور بعد دوپہر گھر واپس آنے تک کملا جاتے ہیں۔ آتے ہی ہوم ورک
شروع ہو جاتا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ دوسری تیسری کلاس کے
طالبعلم کھیل کود سے دور ہو جاتے ہیں اور اکثر کا بچپن ان بھول بلیوں کی
نذر ہو جاتا ہے۔بچے کو کس عمر میں اسکول کے حوالے کرنا چاہئے اس کا ایسا
جواب کسی کے پاس نہیں جس پر اکثریت کا اتفاق ہو تاہم ضروری ہے کہ بچہ اسکول
کے نام اور لکھنے پڑھنے کا کام سے کم از کم آشنا ہو جائے، اسے کاپیاں
کتابیں کھلونے نہ لگیں کہ آئے روز چیر پھاڑ کا شغل ہوتا رہے۔ دوسرے نمبر
پر نصاب کی باری آتی ہے۔ کتابوں کا مواد اور بچے کی ذہنی استعداد ترازو کے
دو پلڑے ہیں اور ذہنی استعداد کے پلڑے کا بھاری ہونا نہ صرف بچے کے حواص
قائم رکھتا ہے بلکہ نتائج بھی حوصلہ افزا نکلتے ہیں جبکہ اس کا الٹ بچوں کی
رات کی نیند تک حرام کئے رکھتا ہے۔


اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو تقریباً ہر اسکول میں لاگو نصاب دیکھ کر
بچے پر ہونے والے علمی ظلم کا باآسانی اندازہ ہو جاتا ہے۔ بستوں کا بوجھ
کہ طالبعلم اٹھانے سے قاصر، کتابوں میں لکھے الفاظ کہ بچہ پڑھنے سے عاجز،
 photo Pic_zps92244e8d.jpgپورا زور علمی مواد میں مذید بہتری لانے پر دیا جا رہا ہے نہ کہ اس میں
آسانی پیدا کرنے پر، ہر سال نت نئی کتابیں، کہانیوں کے نام، تصاویر وغیرہ
بدل کر قیمت بڑھانے کا بہانہ کیا جاتا ہے۔ غضب خدا کا پہلی کلاس کی کتابیں
ڈیڑھ دو ہزار میں مل پاتی ہیں جبکہ کاپیاں الگ سے خریدنا پڑتی ہیں۔ سرکاری
اسکولوں میں کتابیں مفت ملتی ہیں گو مواد پرائیویٹ کتابوں سے قدرے کم ہے
لیکن آسان ہرگز نہیں۔ پانچویں کلاس کو ہی لے لیں انگلش اور سائنس کی
کتابیں میٹرک کے طلباء پر بھی بھاری ہیں یقین نہ آئے تو پڑھ کر دیکھ
لیں۔اس پر سونے پر سہاگہ کہ آئے روز ان میں ہونے والی تبدیلیاں، آئندہ
سال سے نصاب میں مذید’’بہتری‘‘ لانے کی نوید ابھی سے سنا دی گئی ہے۔ اکثر
اسکولوں میں تعلیمی سال شروع ہونے کے باوجود بچوں کو کتابیں نہیں مل پاتیں،
یوں ان حالات میں ایسے نصاب اور طلباء کا حشرنشر ہونا حیرت کی بات نہیں،
ویسے بھی اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اسکولوں میں رٹے لگوا لگوا
کر بچوں میں علم کی طلب سرے سے ختم کر دی گئی ہے۔


تیسرے نمبر پر استاد ہے، جس نے بچے کے معصوم ذہن کو علم کی روشنی سے
منور کرنا ہوتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ استاد کی اپنی علمی قابلیت اس
قابل ہو کہ نصاب کو نہ صرف سمجھ سکے بلکہ اس کی روح نکال کر طالبعلم کے
کورے کینوس پر اس خوبصورتی سے پینٹ کرے کہ نئی نسل ملک و قوم کے روشن
مستقبل کی ضامن بن جائے۔ لیکن کیا ایسا نظر بھی آتا ہے تو اس سوال کے جواب
کی بازگشت نفی میں سنائی دیتی ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کو نان
پروفیشنل کہا جاتا تو دوسری طرف سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی اکثریت جدید
نصاب سے ناصرف نابلد بلکہ خوف زدہ بھی دکھائی دیتی ہے۔ چوتھا نمبر اسکول کا
ہے۔ اسکول کی عمارت اور اس میں مہیا کی گئی سہولتیں طلبہ اور اساتذہ کو
مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ضروری ہے کہ کلاس کیلئے ہوا دار
اور تعداد کے لحاظ سے کھلا کمرہ ہو، طلباء سکون سے بیٹھ سکیں اور استاد کی
ہر بچے تک نہ صرف آواز پہنچے بلکہ رسائی بھی ہو۔ طلباء بلیک یا وائٹ بورڈ
پر لکھا آسانی سے پڑھ سکیں، ہاف ٹائم کے موقع پر ان کی تفریح کیلئے
لوازمات ہوں جن میں کھیل کا میدان اہم حثیت رکھتا ہے کیونکہ کھیل کود ان کے
نہ صرف جسمانی نشونما کیلئے ناگزیر ہے بلکہ ذہن کو بھی تروتازہ کر دیتی ہے
جس سے ان کی استعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے سرکاری اور نجی اسکول ان تمام سہولیات کی فراہمی کا
سوچ بھی نہیں سکتے ذرا مشاہدہ کر لیں سرکاری اداروں میں طلباء کی تعداد کے
مقابلے میں کمروں کی شدید کمی ہے، آدھی سے زیادہ کلاسز سردی ہو یا گرمی
کھلی فضا میں کھلے آسمان تلے منعقد ہوتی ہیں۔ پانچویں نمبر پر والدین آتے
ہیں جن کی تعلیم میں دلچسپی نہ صرف ان کے بچوں بلکہ اسکول کیلئے بھی معاون
خصوصی کی سی حثیت رکھتی ہے۔ والدین کی اپنی تعلیم اور مالی حثیت بہت اہمیت
کی حامل ہوتی ہے۔ مالی طور پر مستحکم لوگ ہی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رخ
کرتے ہیں۔ اگر وہ تعلیم یافتہ ہوں اور اپنے بچوں کی تعلیم میں بھی دلچسی
لیتے ہوں تو گاہے بگاہے اسکول کالج فون ضرورکرتے ہیں۔ بڑی بڑی ٹیوشن فیسز
برداشت کرتے ہیں۔ بچے کو ٹیوٹر پڑھانے گھر آتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف سرکاری
ادارے میں داخل طلباء کے والدین کی اکثریت مالی طور پر کمزور ہونے کے ساتھ
ساتھ ان پڑھ بھی ہوتی ہے اور یہ تک نہیں جانتی کہ بیٹے یا بیٹی کے مضامین
کون سے ہیں۔ اسکول جاتا ہے بھی یا نہیں۔ کبھی بھول کر بھی تعلیمی ادارے کا
رخ نہیں کرتے۔ کم تعلیم اور غیر مستحکم معاشی حثیت کی سزا بچوں کو نہیں
ملنا چاہئے۔ والدین کو ان کی سرگرمیوں پر نظر اور اسکول کا وقتاً فوقتاً
وزٹ کرنا چاہئے اس سے نہ صرف بچے بلکہ اساتذہ پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ صرف
روپیہ پیسہ خرچ کرنا ہی والدین کی ذمہ داری نہیں بلکہ ان اخراجات سے جو
حاصل ہو رہا ہے اس پر نظر رکھنا اور اس کی کوالٹی میں مذید بہتری لانے
کیلئے سعی کرنا بھی ان پر فرض ہے۔


اس سرکل کے تمام اجزا اگر اپنی جگہ درست اور ذمہ داری کا اپنا بوجھ
ایمانداری سے اٹھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیم پر اٹھنے والے قومی
اخراجات بمعہ بہترین منافع کے واپس نہ آ جائیں لیکن اگر ایسا نہ ہو سکے تو
پورا معاشرہ ایسی دلدل کا شکار ہو جاتا ہے جس کا شکار ہمارا اپنا معاشرہ ہے
۔
مضمون نگار: محمد سلیم رضا


ماخذ: ڈیلی ایکسپریس


شاركه على جوجل بلس

عن Unknown

    تعليقات بلوجر
    تعليقات فيسبوك

0 comments:

Post a Comment