جديدنا

نئے صوبوں کا قیام اور حقیتِ حال۔۔۔۔!




تحریر : سید آصف جلال                     زمرہ : سیاسیات ‘ ہمارا معاشرہ


نئے صوبوں کا قیام اور حقیتِ حال۔۔۔۔!






نہایت قابل تشویش بات ہے کہ ایک طویل عرصہ سے صوبوں کے قیام کا ڈھونڈا پیٹا جا رہا ہے، یہ جانے بغیر کے پاکستان کو اس وقت صوبوں کی تشکیل کی نہیں آئین و قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہے، ۴ کے بجائے ۸ صوبے بن جائے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔۔۔۔لیکن جب تک عوامی فلاح کے شعار کو نہیں اپنایا جاتا یہ ساری باتیں مکروہ اور فریبی ہے اور صرف اور صرف سیاسی نعرہ بنانے کی راہ ہموار تلاش کی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔ میرے بھائیوں ! وطن عزیز کے استحکام کے لئے ضروری یہ ہے ہم لسانی اور علاقائی حدوں سے


نکل کے قومی مسائل اور ملکی اجتماعی مفاد کے محافظ بنیں۔۔۔۔۔ لسانی تشخص اپنی جگہ ۔۔۔۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاھیئے کہ ہمارے تشخص کی آڑ میں سیاسی عناصر اپنی مفادات کی تکمیل کے لئے ہماری سوچ وفکر کے نام و نہاد ’نمائندے‘ بنے بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔ سوچیں ذرا ۔۔۔ لسانیت قیام پاکستان سے ہی موجود ہے۔۔۔۔ لیکن اس وقت کے بجائے آج ۶۴ بعد کیوں اس ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔۔





۔۔ ۶۴سالوں کے وقفہ کو چھوڑیں گذشتہ الیکشن پر ہی آتے ہیں اس موقع پر صوبوں کے قیام کی آواز کیوں نہیں اٹھائی گئی۔۔۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں صوبوں کے قیام کا راگ الاپ کر حکومت ہمیں اصل مسائل میں الجھانا چاہتی ہے، پیپلز پارٹی کا منشور ہے۔۔۔۔ روٹی کپڑا اور مکان۔۔۔۔ ذرا اس منشور اور اس کا عوام الناس پر نفاذ و تکمیل کرنے پر غور کریں۔۔۔۔ کیا یہ منشور عوام الناس کی فلاح کا سبب بنا۔۔۔۔۔ کیا روٹی کپڑا اور مکان عوام الناس کے اس طبقے کو میسر ہے جو اس کا حق دار ہے۔۔۔؟ کیا غریب کا چولہے کی فکر گیلانی زرداری اینڈ کمپنی کو ہے۔۔۔؟ کیا مہنگائی کے اس طوفان میں ایک عام آدمی اپنی روزی روٹی آسانی سے کما سکتا ہے۔۔۔۔؟ کیا ایک مزدور اپنے گھریلو ذمہ داری کو پورا کرنے کا اہل ہو سکا ہے۔۔۔؟ کیا عوام اور حکام کے سوچ میں مطابقت کا عنصر پایا جاتا ہے۔۔۔۔ ؟؟؟؟ جب ان اور اس جیسے ان گنت سوالات جن کو تعلق فلاحِ عوام سے ہے عوام کے ذہنوں میں گردش کرتے ہیں اور ان کا جواب ’’ندارد‘‘ میں ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارا ہر مسئلہ سیاسی مفادات کی نذر ہو کر رہ جاتا ہے، اور اس مسئلہ کو مکروفریب کے ساتھ عوام مسئلہ پیش بنا کر ’’سیاست دان‘‘ معاشرے کے افراد کو سیاسی گروہ بندی کی نذر کرتے ہیں۔۔۔ اور یوں عوام کی کثیر تعداد بھی اس مکر و فریب کے زیر اثر اسے انفرادی مسئلہ سمجھ کے انہیں اپنا ناخدا مان لیتے ہیں۔۔۔۔۔ اور پھر یوں ہوتا ہے جو ہوتا آ رہا ہے معاشرہ کی سوچ منقسم ہو جاتی ہے اور معاشرے اتصال کے بجائے تصادم کی جانب بڑھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔!

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاھئے کہ ہمارا نظام اس قدر غلیظ اور مکر و فریب کا سراپا ہے جہاں سیاست اپنی اصلیت کھو
کر ایک نام ونہاد کاروبار بن گیا ہے۔۔۔۔ جہاں عوام حقوق کے محافظ ان ہی کے حقوق کے غاضب ہیں، جہاں غربت و افلاس بجائے کم ہونے کے سیاسی مافیہ کی غیر واضع اور نالائق پالیسوں سے بڑھ رہی ہے۔۔۔۔۔ جہیں قانون سازی تو زور شور سے کی جاتی ہے لیکن اس کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود قانون ساز ادارے کے نمایندے ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ہمارے وزیر اعظم کی  این ار اور کیس کی پیشی کو موقع پر جس حکومتی پروٹوکول کا مظاہرہ ہوا وہ آپ کے سامنے ۔۔۔۔ اسلام اباد میں عوام کی اکثریت کو کتنی دقت امیز صورتحال حال کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔ سرکاری و پرائیوٹ ملازمین اپنے دفاتر میں دیر سے پہنچے۔۔۔۔مان لیا کہ ملک کے سربراہ ہیں ان کا پروٹوکول مناسب۔۔۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سیاست کو خامیت اور مخدوم کا لقب اپنے نام کے ساتھ چسپا کرنے والے ۔۔۔۔ اس نام کی لاج رکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ دوریاں کیوں پیدا کی جاری ہے۔۔۔۔ محمود و ایاز جیسی تاریح والے اس ورایت کو اپنے ہاتھوں سے کیوں ذبح کر رہے ہیں۔۔۔۔ اس حکمران کی حکمرانی جو عوامی احساسات کو سمجھتا ہی نہیں۔۔۔۔ یہ سب باتیں کتابی ہو کر رہ گئی ہیں۔۔۔

 خیر یہ ایک مثال تھی اس قسم کی ہزاروں مثالیں ملکی تاریخ میں رقم ہیں۔۔۔

قارئین ! اس وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں وقت کی نزاکت کو سمجھنا چاہیئے اور ہمارے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے کھیلا گئے اس کھیل کا تماش بین بننے کے بجائے حال کے امر کو پہچاننا چاھیئے۔۔۔۔۔۔ پاکستان کا ہرفردایک ذمہ دار شہر ی ہے ۔۔۔۔۔ اور ان کی ذمہ ہے کہ اپنے حقوق کو حاصل کرنے  کے لئے ایسے ذرائع کا سہارا لیں جو حقیقی معنوں میں اخلاص کی دولت سے مالا مال ہوں، یہ امر ملحوظ رکھنا چاھیئے کہ ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہے اایسا ملک جس کے قیام کا مقصد عوام حقوق کا تحفظ ہے۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔


شاركه على جوجل بلس

عن Unknown

    تعليقات بلوجر
    تعليقات فيسبوك

0 comments:

Post a Comment